(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير العبدي البصري، انبانا سفيان، عن يونس، قال: سمعت الحسن، يقول: قدم عقيل بن ابي طالب البصرة، فتزوج امراة من بني جشم، فقالوا له: بالرفاء والبنين، فقال: لا تقولوا ذلك، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا عن ذلك، وامرنا ان نقول: "بارك الله لك، وبارك عليك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: قَدِمَ عَقِيلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ الْبَصْرَةَ، فَتَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي جُشَمٍ، فَقَالُوا لَهُ: بِالرِّفَاءِ وَالْبَنِينَ، فَقَالَ: لَا تَقُولُوا ذَلِكَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا عَنْ ذَلِكَ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَقُولَ: "بَارَكَ اللهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ".
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (ان کے چچا) سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بصرہ تشریف لائے تو بنی جشم کی ایک عورت سے شادی کی، لوگوں نے عادت کے مطابق انہیں مبارکباد دی اور کہا: «بالرفاء والبنين»(یعنی خیر و برکت اور موافقت مودت اور بیٹوں کی امید کے ساتھ آپ کو شادی مبارک ہو)، اس پر انہوں نے کہا: ایسے نہ کہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں «بالرفاء و البنين» کہنے سے منع کیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ یوں کہیں: «بَارَكَ اللّٰهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ»، یعنی ”اللہ تعالیٰ تم کو برکت دے اور تمہارے اوپر برکت سایہ فگن رکھے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2209) «الرِّفَاءِ وَالْبَنِيْنَ» دولہا کے لئے کہنا بھی کچھ ایسا برا نہیں تھا، مگر چونکہ اس سے یہ نکلتا تھا کہ بیٹیوں کا پیدا ہونا انہیں پسند نہیں، اس وجہ سے ممانعت کی، بہرحال شادی کے بعد دولہا کے لئے «بَارَكَ اللّٰهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْر» کہنا ہی سنت ہے، کما سیأتی۔
تخریج الحدیث: «في القلب ميل إلى تصحيح هذا الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 2219]» یہ روایت دوسری اسانید سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3371]، [ابن ماجه 1906]، [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 602]، [النسائي فى الكبرى 10092]، [طبراني فى الكبير 193/17، 512، 517، 518]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في القلب ميل إلى تصحيح هذا الإسناد