(مرفوع) حدثنا وهب بن بقية، اخبرنا خالد، عن حميد، عن انس،" ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، احملني , قال النبي صلى الله عليه وسلم: إنا حاملوك على ولد ناقة , قال: وما اصنع بولد الناقة , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: وهل تلد الإبل إلا النوق". (مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ،" أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، احْمِلْنِي , قال النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا حَامِلُوكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ , قال: وَمَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَّا النُّوقُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے سواری عطا فرما دیجئیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تو تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کرائیں گے“ وہ بولا: میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخر ہر اونٹ اونٹنی ہی کا بچہ تو ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر والصلة 57 (1991)، (تحفة الأشراف: 655)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/267) (صحیح)»
Narrated Anas ibn Malik: A man came to the Prophet ﷺ and said: Messenger of Allah! give me a mount. The Prophet ﷺ said: We shall give you a she-camel's child to ride on. He said: What shall I do with a she-camel's child? The Prophet ﷺ replied: Do any others than she-camels give birth to camels?
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4980
(مرفوع) حدثنا يحيى بن معين، حدثنا حجاج بن محمد، حدثنا يونس بن ابي إسحاق، عن ابي إسحاق، عن العيزار بن حريث، عن النعمان بن بشير، قال:" استاذن ابو بكر رحمة الله عليه على النبي صلى الله عليه وسلم فسمع صوت عائشة عاليا، فلما دخل تناولها ليلطمها، وقال: الا اراك ترفعين صوتك على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يحجزه، وخرج ابو بكر مغضبا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم حين خرج ابو بكر: كيف رايتني انقذتك من الرجل , قال: فمكث ابو بكر اياما، ثم استاذن على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجدهما قد اصطلحا، فقال: لهما ادخلاني في سلمكما كما ادخلتماني في حربكما , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: قد فعلنا قد فعلنا". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْعَيْزَارِ بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:" اسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ صَوْتَ عَائِشَةَ عَالِيًا، فَلَمَّا دَخَلَ تَنَاوَلَهَا لِيَلْطِمَهَا، وَقَالَ: أَلَا أَرَاكِ تَرْفَعِينَ صَوْتَكِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْجِزُهُ، وَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُغْضَبًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ: كَيْفَ رَأَيْتِنِي أَنْقَذْتُكِ مِنَ الرَّجُلِ , قال: فَمَكَثَ أَبُو بَكْرٍ أَيَّامًا، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَهُمَا قَدِ اصْطَلَحَا، فَقَالَ: لَهُمَا أَدْخِلَانِي فِي سِلْمِكُمَا كَمَا أَدْخَلْتُمَانِي فِي حَرْبِكُمَا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ فَعَلْنَا قَدْ فَعَلْنَا".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو سنا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اونچی آواز میں بول رہی ہیں، تو وہ جب اندر آئے تو انہوں نے انہیں طمانچہ مارنے کے لیے پکڑا اور بولے: سنو! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بلند کرتی ہو، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں روکنے لگے اور ابوبکر غصے میں باہر نکل گئے، تو جب ابوبکر باہر چلے گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھا تو نے میں نے تجھے اس شخص سے کیسے بچایا“ پھر ابوبکر کچھ دنوں تک رکے رہے (یعنی ان کے گھر نہیں گئے) اس کے بعد ایک بار پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو ان دونوں کو پایا کہ دونوں میں صلح ہو گئی ہے، تو وہ دونوں سے بولے: آپ لوگ مجھے اپنی صلح میں بھی شامل کر لیجئے جس طرح مجھے اپنی لڑائی میں شامل کیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے شریک کیا، ہم نے شریک کیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11637)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/272، 275) (ضعیف الإسناد)»
Narrated An-Numan ibn Bashir: When Abu Bakr asked the permission of the Prophet ﷺ to come in, he heard Aishah speaking in a loud voice. So when he entered, he caught hold of her in order to slap her, and said: Do I see you raising your voice to the Messenger of Allah? The Prophet ﷺ began to prevent him and Abu Bakr went out angry. The Prophet ﷺ said when Abu Bakr went out: You see I rescued you from the man. Abu Bakr waited for some days, then asked permission of the Messenger of Allah ﷺ to enter, and found that they had made peace with each other. He said to them: Bring me into your peace as you brought me into your war. The Prophet ﷺ said: We have done so: we have done so.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4981
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ چمڑے کے ایک خیمے میں قیام پذیر تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب دیا، اور فرمایا: ”اندر آ جاؤ“ تو میں نے کہا کہ پورے طور سے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”پورے طور سے“ چنانچہ میں اندر چلا گیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجزیة 15 (3176)، سنن ابن ماجہ/الفتن 42 (4042)، (تحفة الأشراف: 19003، 10918)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/22) (صحیح)»
Awf bin Malik al-Ashjai said: I came to the Messenger of Allah ﷺ at the expedition to Tabuk when he was in a small skin tent. I gave him a salutation and he returned it, saying: come in. I asked: the whole of me Messenger of Allah? He replied: The whole of you. So I entered.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4982
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن مهدي، حدثنا شريك، عن عاصم، عن انس، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ذا الاذنين". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قال لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے دو کانوں والے!“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 46 (1992)، (تحفة الأشراف: 934)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/117، 127، 242، 260) (صحیح)»