كِتَاب الْأَدَبِ کتاب: آداب و اخلاق کا بیان 93. باب مَنْ يَأْخُذُ الشَّىْءَ عَلَى الْمِزَاحِ باب: ہنسی مذاق میں کوئی کسی کی چیز لے لے تو کیسا ہے؟
یزید بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا سامان (بلا اجازت) نہ لے نہ ہنسی میں اور نہ ہی حقیقت میں ۱؎“۔ سلیمان کی روایت میں ( «لاعبا ولا جادا"» کے بجائے) «لعبا ولا جدا» ہے، اور جو کوئی اپنے بھائی کی لاٹھی لے تو چاہیئے کہ (ضرورت پوری کر کے) اسے لوٹا دے۔ ابن بشار نے صرف عبداللہ بن سائب کہا ہے ابن یزید کا اضافہ نہیں کیا ہے اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، کہنے کے بجائے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 3 (2160)، (تحفة الأشراف: 11827)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/221) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: حقیقت میں لینے کی ممانعت کی وجہ تو ظاہر ہے کہ یہ چوری ہے اور ہنسی میں لینے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ کبھی کبھی یہ چیز سامان والے کی ناراضگی اور اس کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ ہم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، ان میں سے ایک صاحب سو گئے، کچھ لوگ اس رسی کے پاس گئے، جو اس کے پاس تھی اور اسے لے لیا تو وہ ڈر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15625)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/362) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بطور مذاق بھی ایسا کرنا صحیح نہیں کیونکہ اس میں ایذا رسانی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|