جُمَّاعُ أَبْوَابِ قِيَامِ الْمَأْمُومِينَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَمَا فِيهِ مِنَ السُّنَنِ مقتدیوں کا امام کے پیچھے کھڑا ہونا اور اس میں وارد سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ 1077. (126) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الِاقْتِدَاءِ بِالْمُصَلِّي الَّذِي يَنْوِي الصَّلَاةَ مُنْفَرِدًا، وَلَا يَنْوِي إِمَامَةَ الْمُقْتَدِي بِهِ. ایسے نمازی کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان جو اکیلے نماز پڑھنے کی نیت سے نماز پڑھ رہا ہو اور اس کی نیت مقتدی امامت کرانا نہ ہو
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہماری ایک بڑی چٹائی تھی جسے ہم دن کے وقت بچھا لیتے تھے اور رات کے وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُسے سمیٹ کر اُس پر نماز ادا فرماتے۔ پھر کچھ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کا پتہ لگالیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا علم ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اتنے عمل کی ذمہ داری اُٹھاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ (ثواب دیتے ہوئے) نہیں تھکے گا حتّیٰ کہ تم ہی (عمل کرتے کرتے) تھک جاؤ گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ تھا جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی (نفل) نماز ادا فرماتے تو اس پر ہمیشگی اختیار کرتے۔ یہ جناب عبد الجبار کی روایت ہے اور جناب سعید بن عبدالرحمان کی روایت میں ہے کہ ” کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کی خبر سنی تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔“ اور یہ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں ڈرتا ہوں کہ مجھے تمہارے بارے میں کوئی ایسا حُکم نہ دے دیا جائے جس کی تم طاقت نہ رکھو۔“
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی حجرے میں (نفل) نماز ادا فرمائی تو کچھ مسلمانوں کو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا علم ہو گیا) تو وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی موجودگی کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مختصر کردی، پھر آپ گھر تشریف لے گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے (تو لوگ ابھی موجود تھے) لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل کئی بار کیا۔ جب صبح ہوئی تو اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، گزشتہ رات ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی ہے، اور ہم اسے وسیع پیمانے پر ادا کرنا چاہتے ہیں - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے یہ کام عمداََ کیا ہے (تا کہ تم پر یہ نماز فرض نہ کر دی جائے)۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
|