صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ قِيَامِ الْمَأْمُومِينَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَمَا فِيهِ مِنَ السُّنَنِ
مقتدیوں کا امام کے پیچھے کھڑا ہونا اور اس میں وارد سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
1072. (121) بَابُ ذِكْرِ أَخْبَارٍ تَأَوَّلَهَا بَعْضُ الْعُلَمَاءِ نَاسِخَةً لِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَأْمُومَ بِالصَّلَاةِ جَالِسًا إِذَا صَلَّى إِمَامُهُ جَالِسًا.
ان روایات کا بیان جنہیں بعض علماء نے تاویل کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حُکم کو ناسخ قرار دیا ہے جس میں آپ نے مقتدی کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے، جبکہ اس کا امام بھی بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو
حدیث نمبر: 1616
Save to word اعراب
نا سلم بن جنادة ، حدثنا وكيع . ح وحدثنا سلم ايضا، نا ابو معاوية ، كلاهما عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة ، قالت: لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات فيه جاءه بلال يؤذنه بالصلاة، فقال: " مروا ابا بكر فليصل بالناس"، قلنا: يا رسول الله، إن ابا بكر رجل اسيف، ومتى ما يقوم مقامك يبكي، فلا يستطيع، فلو امرت عمر ان يصلي بالناس. قال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس" ثلاث مرات" فإنكن صواحبات يوسف" قالت: فارسلنا إلى ابي بكر، فصلى بالناس، فوجد النبي صلى الله عليه وسلم خفة، فخرج يهادى بين رجلين، ورجلاه تخطان في الارض، فلما احس به ابو بكر، ذهب ليتاخر، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم: ان مكانك. قال: فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، فجلس إلى جنب ابي بكر، فكان ابو بكر ياتم بالنبي صلى الله عليه وسلم، والناس ياتمون بابي بكر رضوان الله عليه . هذا حديث وكيع وقال في حديث ابي معاوية: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدا، وابو بكر قائما. قال ابو بكر: قال قوم من اهل الحديث إذا صلى الإمام المريض جالسا، صلى من خلفه قياما إذا قدروا على القيام، وقالوا: خبر الاسود، وعروة، عن عائشة ناسخ للاخبار التي تقدم ذكرنا لها في امر النبي صلى الله عليه وسلم اصحابه بالجلوس إذا صلى الإمام جالسا. قالوا: لان تلك الاخبار عند سقوط النبي صلى الله عليه وسلم من الفرس، وهذا الخبر في مرضه الذي توفي فيه قالوا: والفعل الآخر ناسخ لما تقدم من فعله وقوله. قال ابو بكر: وإن الذي عندي في ذلك والله اسال العصمة والتوفيق انه لو صح ان النبي صلى الله عليه وسلم كان هو الإمام في المرض الذي توفي فيه لكان الامر على ما قالت هذه الفرقة من اهل الحديث، ولكن لم يثبت عندنا ذلك ؛ لان الرواة قد اختلفوا في هذه الصلاة على فرق ثلاثنا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وَحَدَّثَنَا سَلْمٌ أَيْضًا، نا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، كِلاهُمَا عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ جَاءَهُ بِلالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاةِ، فَقَالَ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَمَتَى مَا يَقُومُ مَقَامَكَ يَبْكِي، فَلا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ. قَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" ثَلاثَ مَرَّاتٍ" فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ" قَالَتْ: فَأَرْسَلْنَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِفَّةً، فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاهُ تَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، فَلَمَّا أَحَسَّ بِهِ أَبُو بَكْرٍ، ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ مَكَانَكَ. قَالَ: فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ . هَذَا حَدِيثُ وَكِيعٍ وَقَالَ فِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا، وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ إِذَا صَلَّى الإِمَامُ الْمَرِيضُ جَالِسًا، صَلَّى مَنْ خَلْفَهُ قِيَامًا إِذَا قَدَرُوا عَلَى الْقِيَامِ، وَقَالُوا: خَبَرُ الأَسْوَدِ، وَعُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَاسِخٌ لِلأَخْبَارِ الَّتِي تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا فِي أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ بِالْجُلُوسِ إِذَا صَلَّى الإِمَامُ جَالِسًا. قَالُوا: لأَنَّ تِلْكَ الأَخْبَارَ عِنْدَ سُقُوطِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْفَرَسِ، وَهَذَا الْخَبَرَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ قَالُوا: وَالْفِعْلُ الآخَرُ نَاسِخٌ لِمَا تَقَدَّمَ مِنْ فِعْلِهِ وَقَوْلِهِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَإِنَّ الَّذِي عِنْدِي فِي ذَلِكَ وَاللَّهَ أَسْأَلُ الْعِصْمَةَ وَالتَّوْفِيقَ أَنَّهُ لَوْ صَحَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ هُوَ الإِمَامَ فِي الْمَرَضِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ لَكَانَ الأَمْرُ عَلَى مَا قَالَتْ هَذِهِ الْفِرْقَةُ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَلَكِنْ لَمْ يَثْبُتْ عِنْدَنَا ذَلِكَ ؛ لأَنَّ الرُّوَاةَ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي هَذِهِ الصَّلاةِ عَلَى فِرَقٍ ثَلاثٍ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مرض میں بیمار ہوئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع کرنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، بیشک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نہایت نرم دل اور بہت جلد رو دینے والے شخص ہیں، وہ جب آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگ جائیں گے اور نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔ اس لئے اگر آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حُکم دیں تو بہتر ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ حُکم دیا - پھر فرمایا: بلاشبہ تم حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصّہ والی عورتوں جیسی ہو - سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، لہٰذا ہم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا (وہ تشریف لائے) اور لوگوں کو نماز پڑھائی - (اس دوران) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ افاقہ محسوس کیا تو دو آدمیوں کا سہارا لیکر تشریف لائے جبکہ آپ کے قدم مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے - جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی آمد کو محسوس کیا تو پیچھے ہٹنے لگے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ گئے - اس طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ کر رہے تھے اور لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدأ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ یہ حدیث جناب وکیع کی ہے اور جناب ابومعاویہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ محدثین کے ایک گروہ کا یہ کہنا ہے کہ جب بیمار امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے قیام کی طاقت رکھنے والے مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ جناب اسود اور عروہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ان احادیث کی ناسخ ہے جنہیں ہم نے گزشتہ اوراق میں ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے جبکہ اُن کا امام بھی بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو، فرماتے ہیں کہ چونکہ گزشتہ احادیث اُس وقت کی ہیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گرگئے تھے (اور موچ آنے کی وجہ سے آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی تھی) اور اس حدیث میں مذکور واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری کے وقت کا ہے جس بیماری میں آپ وفات پاگئے تھے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل آپ کے سابقہ قول وفعل کے ناسخ ہے۔ امام بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے غلطی سے بچاؤ اور درست راہ کی توفیق کا سوال کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں میرے نزدیک درست ہے کہ اگر یہ بات صحیح ثابت ہو جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں خود ہی امام تھے تو پھر مسئلہ اسی طرح ہوگا جس طرح یہ اہل حدیث گروہ کہتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ اس نماز کے متعلق راویوں کا اختلاف ہے اور ان کے تین گروہ بن گئے ہیں۔ (جو درج ذیل ہیں)۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1617
Save to word اعراب
ففي خبر هشام، عن ابيه، عن عائشة، وخبر الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة رضي الله عنها،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان الإمام". وقد روي بمثل هذا الإسناد عن عائشة، انها قالت:" من الناس من يقول: كان ابو بكر المقدم بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومنهم من يقول: كان النبي صلى الله عليه وسلم المقدم بين يدي ابي بكر"فَفِي خَبَرِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَخَبَرِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الإِمَامَ". وَقَدْ رُوِيَ بِمِثْلِ هَذَا الإِسْنَادِ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ: كَانَ أَبُو بَكْرٍ الْمُقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ"
جناب عروہ اور اسود کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی امام تھے اور اسی قسم کی سند سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (بطور امام) کھڑے تھے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آگے کھڑے تھے۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق
حدیث نمبر: 1618
Save to word اعراب
ثنا بذلك محمد بن بشار ، حدثنا ابو داود ، نا شعبة ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشةثنا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، نا شُعْبَةُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ
امام صاحب نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی سند بیان کی ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح علي شرط مسلم
حدیث نمبر: 1619
Save to word اعراب
وروي عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، ومسروق بن الاجدع، عن عائشة ،" ان ابا بكر، صلى بالناس ورسول الله صلى الله عليه وسلم في الصف" وَرُوِيَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، وَمَسْرُوقِ بْنِ الأَجْدَعِ، عَنْ عَائِشَةَ ،" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، صَلَّى بِالنَّاسِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّفِّ"
جناب مسروق بن اجدع، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف میں شامل تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1620
Save to word اعراب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے صف میں تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1621
Save to word اعراب
نا بندار ، حدثنا بدل بن المحبر ، حدثنا شعبة ، عن موسى بن ابي عائشة ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن عائشة ،" ان ابا بكر صلى بالناس، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في الصف خلفه" . قال ابو بكر: فلم يصح الخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم كان هو الإمام في المرض الذي توفي فيه في الصلاة التي كان هو فيها قاعدا، وابو بكر والقوم قيام ؛ لان في خبر مسروق، وعبيد الله بن عبد الله، عن عائشة ان ابا بكر كان الإمام، والنبي صلى الله عليه وسلم ماموم، وهذا ضد خبر هشام، عن ابيه، عن عائشة، وخبر إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، على ان شعبة بن الحجاج قد بين في روايته عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة ان من الناس من يقول: كان ابو بكر المقدم بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومنهم من قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم المقدم بين يدي ابي بكر. وإذا كان الحديث الذي به احتج من زعم ان فعله الذي كان في سقطته من الفرس، وامره صلى الله عليه وسلم بالاقتداء بالائمة وقعودهم في الصلاة إذا صلى إمامهم قاعدا، منسوخ غير صحيح من جهة النقل، فغير جائز لعالم ان يدعي نسخ ما قد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم بالاخبار المتواترة بالاسانيد الصحاح من فعله وامره بخبر مختلف فيه. على ان النبي صلى الله عليه وسلم قد زجر عن هذا الفعل الذي ادعته هذه الفرقة في خبر عائشة الذي ذكرنا انه مختلف فيه عنها، واعلم انه فعل فارس، والروم بعظمائها، يقومون وملوكهم قعود، وقد ذكرنا هذا الخبر في موضعه، فكيف يجوز ان يؤمر بما قد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم من الزجر عنه استنانا بفارس، والروم، من غير ان يصح عنه صلى الله عليه وسلم الامر به وإباحته بعد الزجر عنه؟ ولا خلاف بين اهل المعرفة بالاخبار ان النبي صلى الله عليه وسلم قد صلى قاعدا , وامر القوم بالقعود، وهم قادرون على القيام، لو ساعدهم القضاء، وقد امر النبي صلى الله عليه وسلم المامومين بالاقتداء بالإمام والقعود إذا صلى الإمام قاعدا، وزجر عن القيام في الصلاة إذا صلى الإمام قاعدا، واختلفوا في نسخ ذلك، ولم يثبت خبر من جهة النقل بنسخ ما قد صح عنه صلى الله عليه وسلم مما ذكرنا من فعله وامره، فما صح عن النبي صلى الله عليه وسلم، واتفق اهل العلم على صحته يقين، وما اختلفوا فيه ولم يصح فيه خبر عن النبي صلى الله عليه وسلم شك، وغير جائز ترك اليقين بالشك، وإنما يجوز ترك اليقين باليقين. فإن قال قائل غير منعم الروية: كيف يجوز ان يصلي قاعدا من يقدر على القيام؟ قيل له: إن شاء الله يجوز ذلك ان يصلي باولى الاشياء ان يجوز به، وهي سنة النبي صلى الله عليه وسلم، امر باتباعها، ووعد الهدى على اتباعها، فاخبر ان طاعته صلى الله عليه وسلم طاعته عز وجل، وقوله: كيف يجوز لما قد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم الامر به، وثبت فعله له بنقل العدل عن العدل موصولا إليه بالاخبار المتواترة جهل من قائله. وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم عند جميع اهل العلم بالاخبار الامر بالصلاة قاعدا إذا صلى الإمام قاعدا، وثبت عندهم ايضا انه صلى الله عليه وسلم صلى قاعدا بقعود اصحابه، لا مرض بهم، ولا باحد منهم. وادعى قوم نسخ ذلك، فلم تثبت دعواهم بخبر صحيح لا معارض له، فلا يجوز ترك ما قد صح من امره صلى الله عليه وسلم، وفعله في وقت من الاوقات، إلا بخبر صحيح عنه، ينسخ امره ذلك وفعله. ووجود نسخ ذلك بخبر صحيح معدوم، وفي عدم وجود ذلك بطلان ما ادعت، فجازت الصلاة قاعدا، إذا صلى الإمام قاعدا اقتداء به على امر النبي صلى الله عليه وسلم وفعله، والله الموفق للصوابنا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ،" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ صَلَّى بِالنَّاسِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّفِّ خَلْفَهُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَلَمْ يَصِحَّ الْخَبَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ هُوَ الإِمَامَ فِي الْمَرَضِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فِي الصَّلاةِ الَّتِي كَانَ هُوَ فِيهَا قَاعِدًا، وَأَبُو بَكْرٍ وَالْقَوْمٌ قِيَامٌ ؛ لأَنَّ فِي خَبَرِ مَسْرُوقٍ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ الإِمَامَ، وَالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَأْمُومٌ، وَهَذَا ضِدُّ خَبَرِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَخَبَرِ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَلَى أَنَّ شُعْبَةَ بْنَ الْحَجَّاجِ قَدْ بَيَّنَ فِي رِوَايَتِهِ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ: كَانَ أَبُو بَكْرٍ الْمُقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ. وَإِذَا كَانَ الْحَدِيثُ الَّذِي بِهِ احْتَجَّ مَنْ زَعَمَ أَنَّ فِعْلَهُ الَّذِي كَانَ فِي سَقْطَتِهِ مِنَ الْفَرَسِ، وَأَمْرَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالاقْتِدَاءِ بِالأَئِمَّةِ وَقُعُودِهِمْ فِي الصَّلاةِ إِذَا صَلَّى إِمَامُهُمْ قَاعِدًا، مَنْسُوخٌ غَيْرُ صَحِيحٍ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، فَغَيْرُ جَائِزٍ لِعَالِمٍ أَنْ يَدَّعِيَ نَسْخَ مَا قَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالأَخْبَارِ الْمُتَوَاتِرَةِ بِالأَسَانِيدِ الصِّحَاحِ مِنْ فِعْلِهِ وَأَمْرِهِ بِخَبَرٍ مُخْتَلَفٍ فِيهِ. عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ زَجَرَ عَنْ هَذَا الْفِعْلِ الَّذِي ادَّعَتْهُ هَذِهِ الْفِرْقَةُ فِي خَبَرِ عَائِشَةَ الَّذِي ذَكَرْنَا أَنَّهُ مُخْتَلَفٌ فِيهِ عَنْهَا، وَأَعْلَمَ أَنَّهُ فِعْلُ فَارِسَ، وَالرُّومِ بِعُظَمَائِهَا، يَقُومُونَ وَمُلُوكُهُمْ قَعُودٌ، وَقَدْ ذَكَرْنَا هَذَا الْخَبَرَ فِي مَوْضِعِهِ، فَكَيْفَ يَجُوزُ أَنْ يُؤْمَرَ بِمَا قَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الزَّجْرِ عَنْهُ اسْتِنَانًا بِفَارِسَ، وَالرُّومِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَصِحَّ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَمْرُ بِهِ وَإِبَاحَتُهُ بَعْدَ الزَّجْرِ عَنْهُ؟ وَلا خِلافَ بَيْنِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالأَخْبَارِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى قَاعِدًا , وَأَمَرَ الْقَوْمَ بِالْقُعُودِ، وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى الْقِيَامِ، لَوْ سَاعَدَهُمُ الْقَضَاءُ، وَقَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَأْمُومِينَ بِالاقْتِدَاءِ بِالإِمَامِ وَالْقُعُودِ إِذَا صَلَّى الإِمَامُ قَاعِدًا، وَزَجَرَ عَنِ الْقِيَامِ فِي الصَّلاةِ إِذَا صَلَّى الإِمَامُ قَاعِدًا، وَاخْتَلَفُوا فِي نَسْخِ ذَلِكَ، وَلَمْ يَثْبُتْ خَبَرٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ بِنَسْخِ مَا قَدْ صَحَّ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا ذَكَرْنَا مِنْ فِعْلِهِ وَأَمْرِهِ، فَمَا صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاتَّفَقَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى صِحَّتِهِ يَقِينٌ، وَمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَلَمْ يَصِحَّ فِيهِ خَبَرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكٌّ، وَغَيْرُ جَائِزٍ تَرْكُ الْيَقِينِ بِالشَّكِّ، وَإِنَّمَا يَجُوزُ تَرْكُ الْيَقِينِ بِالْيَقِينِ. فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ غَيْرُ مُنْعِمِ الرَّوِيَّةِ: كَيْفَ يَجُوزُ أَنْ يُصَلِّيَ قَاعِدًا مَنْ يَقْدِرُ عَلَى الْقِيَامِ؟ قِيلَ لَهُ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ يَجُوزُ ذَلِكَ أَنْ يُصَلِّيَ بِأَوْلَى الأَشْيَاءِ أَنْ يَجُوزَ بِهِ، وَهِيَ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ بِاتِّبَاعِهَا، وَوَعَدَ الْهُدَى عَلَى اتِّبَاعِهَا، فَأَخْبَرَ أَنَّ طَاعَتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَاعَتُهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَوْلُهُ: كَيْفَ يَجُوزُ لِمَا قَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَمْرُ بِهِ، وَثَبَتَ فِعْلُهُ لَهُ بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ مَوْصُولا إِلَيْهِ بِالأَخْبَارِ الْمُتَوَاتِرَةِ جَهْلٌ مِنْ قَائِلِهِ. وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ جَمِيعِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالأَخْبَارِ الأَمْرُ بِالصَّلاةِ قَاعِدًا إِذَا صَلَّى الإِمَامُ قَاعِدًا، وَثَبَتَ عِنْدَهُمْ أَيْضًا أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى قَاعِدًا بِقُعُودِ أَصْحَابِهِ، لا مَرَضَ بِهِمْ، وَلا بِأَحَدٍ مِنْهُمْ. وَادَّعَى قَوْمٌ نَسْخَ ذَلِكَ، فَلَمْ تَثْبُتْ دَعْوَاهُمْ بِخَبَرٍ صَحِيحٍ لا مُعَارِضَ لَهُ، فَلا يَجُوزُ تَرْكُ مَا قَدْ صَحَّ مِنْ أَمْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِعْلِهِ فِي وَقْتٍ مِنَ الأَوْقَاتِ، إِلا بِخَبَرٍ صَحِيحٍ عَنْهُ، يَنْسَخُ أَمْرَهُ ذَلِكَ وَفِعْلَهُ. وَوُجُودُ نَسْخِ ذَلِكَ بِخَبَرٍ صَحِيحٍ مَعْدُومٌ، وَفِي عَدَمِ وُجُودِ ذَلِكَ بُطْلانُ مَا ادَّعَتْ، فَجَازَتِ الصَّلاةُ قَاعِدًا، إِذَا صَلَّى الإِمَامُ قَاعِدًا اقْتِدَاءً بِهِ عَلَى أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِعْلِهِ، وَاللَّهُ الْمُوَفَّقُ لِلصَّوَابِ
جناب عبیداللہ بن عبداللہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پیچھے صف میں موجود تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ چنانچہ یہ روایت درست نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں ادا کی گئی نماز میں امام تھے، اور آپ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے تھے۔ کیونکہ جناب مسروق اور عبید اللہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ احادیث میں مذکور ہے کہ امام سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی تھے اور یہ روایت جناب عروہ اور اسود کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایات کے خلاف ہے۔ اس بنا پر کہ امام شعبہ بن حجاج نے اپنی سند سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں بیان کر دیا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امام تھے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے امام تھے جب وہ حدیث جس سے اُن لوگوں نے استدلال کیا ہے جن کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل اُس وقت کا ہے جب آپ گھوڑے سے گر گئے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم کہ ائمہ کی اقتدا کی جائے اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائیں تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں، یہ منسوخ ہے۔ جبکہ یہ بات نقل کے اعتبار سے صحیح ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا کسی عالم دین کے لئے ایک مختلف فیہ حدیث کے ساتھ آپ کے کسی ایسے فعل اور حُکم کو منسوخ قرار دینا درست نہیں، جو آپ سے صحیح اور متواتر اسانید کے ساتھ ثابت ہو۔ کیونکہ محدثین کے اس گروہ نے جو دعویٰ کیا ہے اس فعل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں منع کیا ہے اور ہم نے بیان کیا ہے کہ وہ روایت مختلف فیہ ہے اور آپ نے بیان کیا ہے کہ یہ کام ایرانی اور رومی اپنے باشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں کہ جب اُن کے بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں تو یہ (اُن کی تعظیم کے لئے) کھڑے رہتے ہیں۔ ہم اس حدیث کو اس کے مقام پر بیان کرچکے ہیں۔ لہٰذا جس کام سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم منع کر چکے ہوں۔ ایرانیوں اور رومیوں کی اتباع کرتے ہوئے اس کام کا حُکم دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے بعد یہ بات بھی صحیح ثابت نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کا حُکم دیا ہو اور اسے جائز قرار دیا ہو۔ احادیث کی معرفت رکھنے والے علمائے کرام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز ادا کی ہے، اور لوگوں کو بھی بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے، جبکہ وہ قیام کی قدرت رکھتے ہوں اور ان کے لئے بیٹھ کر نماز کی ادائیگی ممکن ہو - یقیناً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدیوں کو امام کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے، جبکہ امام بھی بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اور جب امام بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو تو مقتدیوں کو نماز میں کھڑے ہونے سے منع کیا ہے ـ اس حُکم کے منسوخ ہونے میں علماء نے اختلاف کیا ہے لیکن نقل کے اعتبار سے نبی کریم سے ایسی کوئی روایت ثابت نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت آپ کے فعل اوإر حُکم کو منسوخ کرے۔ جسے ہم نے بیان کیا ہے۔ لہٰذا جو چیز آپ سے صحیح ثابت ہے اور اہل علم کا اس کی صحت پر اتفاق ہے وہ چیز یقینی ہے، اور جس چیز پر علمائے کرام کا اختلاف ہے اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی چیز ثابت نہیں تو وہ چیز مشکوک ہے اور مشکوک چیز کے ساتھ یقینی اور پختہ چیز کو ترک کرنا جائز نہیں ہے بلکہ یقینی چیز کو یقینی چیز کے ساتھ ہی ترک کیا جاتا ہے - اگر (احکام دین میں) گہرا غور و فکر کرنے والا کوئی شخص یہ کہے کہ قیام کی قدرت رکھنے والے شخص کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اسے جواب دیا جائے گا کہ اگر اللہ چاہے تو اُس کے لئے یہ جائز ہو گا کہ وہ بہترین چیز کے ساتھ نماز پڑھ لے جبکہ یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے جس کی اتباع کا حُکم دیا گیا ہے اور اس کی اتباع پر ہدایت نصیب کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ چنانچہ بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت درحقیقت اللہ عزوجل ہی کی اطاعت ہے اور سائل کا یہ کہنا (بیٹھ کر مقتدی کا نماز پڑھنا) کیسے جائز ہو سکتا ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عادل راویوں کی متواتر اسانید سے صحیح ثابت ہے آپ نے (کھڑے ہوکر، بیٹھے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا) حُکم دیا ہے اور آپ کے فعل سے بھی ثابت ہے۔ یہ قائل کی لاعلمی ہے، کیونکہ تمام ماہرین علم حدیث کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے جبکہ امام بیٹھ کر نماز پڑھائے اور ان کے نزدیک یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سمیت بیٹھ کر نماز ادا کی ہے، جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا۔ (سب بیٹھ کر نماز پڑھنے پر قادر تھے)۔ ایک گروہ نہیں تھا۔ (سب بیٹھ کر نماز پڑھنے پر قادر تھے)۔ ایک گروہ نے اس کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ان کا یہ دعویٰ کسی ایسی صحیح روایت سے ثابت نہیں جس روایت کی کوئی معارض ومخالف روایت موجود نہ ہو۔ لہٰذا جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم اور آپ کے فعل سے صحیح ثابت ہو اس کی مخالفت کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک آپ کے حُکم اور فعل کو منسوخ کرنے والی کوئی صحیح روایت موجود نہ ہو اور اس حُکم کو منسوخ کرنے والی صحیح روایت معدوم ہے۔ ایسی روایت کا دستیاب نہ ہونا، اہل محدثین کے اس گروہ کے دعویٰ کو باطل کرتا ہے۔ لہٰذا جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدیوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم اور فعل کے مطابق امام کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ وَاللهُ الْمُوَفِّقُ لِلصَّوَابِ (اللہ تعالیٰ ہی درست راہ کی توفیق بخشتا ہے۔)

تخریج الحدیث: اسناده صحيح علي شرط البخاري

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.