جُمَّاعُ أَبْوَابِ قِيَامِ الْمَأْمُومِينَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَمَا فِيهِ مِنَ السُّنَنِ مقتدیوں کا امام کے پیچھے کھڑا ہونا اور اس میں وارد سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ 1081. (130) بَابُ إِبَاحَةِ ائْتِمَامِ الْمُصَلِّي فَرِيضَةً بِالْمُصَلِّي نَافِلَةً، فرض نماز پڑھنے والا مقتدی، نفل نماز پڑھانے والے امام کی اقتداء میں نماز ادا کرسکتا ہے
اُن عراقی علماء کے قول کے برخلاف جو کہتے ہیں کہ فرض نماز پڑھنے والے کے لئے نفل نماز پڑھنے والے کی اقتدا کرنا جائز نہیں ہے
تخریج الحدیث:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے، پھر واپس جاکر اپنی قوم کو امامت کراتے اور اُنہیں وہی نماز پڑھاتے۔“
تخریج الحدیث: اسناده حسن صحيح
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے تھے، پھر واپس جا کر اپنے ساتھیوں کو نماز (عشاء) پڑھاتے تھے ـ ایک دن جب وہ واپس آگئے تو اُنہیں نماز پڑھائی اور ان کے پیچھے ان کی قوم کے ایک نوجوان نے بھی نماز پڑھنی شروع کی۔ جب اس نوجوان پر (سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی) قراءت لمبی ہوگئی تو وہ (اکیلے) نماز پڑھ کر چلا گیا۔ اُس نے اپنے اونٹ کی لگام پکڑی اور چل دیا۔ جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے نماز مکمّل کرلی تو اُنہیں یہ بات بتائی گئی۔ اُنہوں نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ تو نفاق ہے میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں گا - لہٰذا سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوجوان کا قصّہ بتایا تو اُس نوجوان نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ بڑی دیر تک آپ کے پاس ٹھہرتے ہیں پھر واپس جاکر ہمیں طویل نماز پڑھاتے ہیں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ، کیا تو فتنہ باز ہے؟ اور نوجوان سے پوچھا: ”اے بھتیجے، تم نماز کیسے پڑھتے ہو؟“ اُس نے جواب دیا کہ میں فاتحۃ الکتاب پڑھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اُس کی جنّت مانگتا ہوں اور جہنّم سے اُس کی پناہ مانگتا ہوں لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے گنگنانے کو نہیں جانتا (کہ آپ کون سی دعائیں مانگتے ہیں) تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں اور معاذ بھی انہی دو کے ارد گرد گنگناتے ہیں (جنّت کے حصول کی دعائیں اور جہنّم سے پناہ مانگتے ہیں)۔ یا اسی قسم کا جواب دیا۔ اُس نوجوان نے کہا، لیکن معاذ عنقریب جان لے گا (کہ میں منافق ہوں یا سچا مومن) جب قوم (میدان کا رزار میں) آئے گی اور وہ جان چکے ہیں کہ دشمن قریب آچکا ہے۔ پھر جب قوم میدان میں اُتری تو نوجوان نے شہادت پائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد سیدنا معاذ سے پوچھا: ”میرے اور تمہارے مخالف کا کیا بنا؟“ اُنہوں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اُس نے اللہ تعالیٰ کو اپنی بات سچ کر دکھائی، وہ شہید ہو گیا ہے، جبکہ میری بات غلط نکلی (جو میں نے اُسے منافق کہا تھا)۔
تخریج الحدیث: صحيح
|