مسافر شخص کا مقیم لوگوں کو امامت کرانا اور امام کے فارغ ہونے کے بعد مقیم افراد کا اپنی نماز کو مکمّل کرنا۔ اگر اس سلسلے میں مروی روایت صحیح ہو۔ کیونکہ علی بن زید بن جدعان کے بارے میں میرے دل میں عدم اطمینان ہے اور میں نے یہ روایت اس کتاب میں صرف اس لئے بیان کردی ہے کیونکہ اس مسئلہ میں علمائے کرام کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
وإتمام المقيمين صلاتهم بعد فراغ الإمام إن ثبت الخبر؛ فإن في القلب من علي بن زيد بن جدعان، وإنما خرجت هذا الخبر في هذا الكتاب؛ لان هذه مسالة لا يختلف العلماء فيها.وَإِتْمَامِ الْمُقِيمِينَ صَلَاتَهُمْ بَعْدَ فَرَاغِ الْإِمَامِ إِنْ ثَبَتَ الْخَبَرُ؛ فَإِنَّ فِي الْقَلْبِ مِنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، وَإِنَّمَا خَرَّجْتُ هَذَا الْخَبَرَ فِي هَذَا الْكِتَابِ؛ لِأَنَّ هَذِهِ مَسْأَلَةٌ لَا يَخْتَلِفُ الْعُلَمَاءُ فِيهَا.
نا احمد بن عبدة ، اخبرنا عبد الوارث . ح وحدثنا زياد بن ايوب ، نا إسماعيل ، قالا: حدثنا علي بن زيد ، عن ابي نضرة ، قال: قام شاب إلى عمران بن حصين ، قال: فاخذ بلجام دابته، فساله عن صلاة السفر. فالتفت إلينا، فقال: إن هذا الفتى يسالني عن امر، وإني احببت ان احدثكموه جميعا: غزوت رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوات، فلم يكن يصلي إلا ركعتين ركعتين، حتى يرجع المدينة . زاد زياد بن ايوب: وحججت معه، فلم يصل إلا ركعتين حتى يرجع إلى المدينة، وقالا: اقام بمكة زمن الفتح ثمانية عشر ليلة يصلي ركعتين ركعتين، ثم يقول لاهل مكة:" صلوا اربعا، فإنا قوم سفر"، وغزوت مع ابي بكر، وحججت معه، فلم يكن يصلي إلا ركعتين حتى يرجع، وحججت مع عمر حجات، فلم يكن يصلي إلا ركعتين حتى يرجع، وصلاها عثمان سبع سنين من إمارته ركعتين في الحج حتى يرجع إلى المدينة، ثم صلاها بعدها اربعا. زاد احمد: ثم قال: هل بينت لكم؟ قلنا: نعم. ولفظ الحديث احمد بن عبدةنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ . ح وَحَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، نا إِسْمَاعِيلُ ، قَالا: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: قَامَ شَابٌّ إِلَى عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: فَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِهِ، فَسَأَلَهُ عَنْ صَلاةِ السَّفَرِ. فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْفَتَى يَسْأَلُنِي عَنْ أَمْرٍ، وَإِنِّي أَحْبَبْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ جَمِيعًا: غَزَوْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَوَاتٍ، فَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي إِلا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى يَرْجِعَ الْمَدِينَةَ . زَادَ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ: وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمْ يُصَلِّ إِلا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَقَالا: أَقَامَ بِمَكَّةَ زَمَنَ الْفَتْحِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ لَيْلَةً يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَقُولُ لأَهْلِ مَكَّةَ:" صَلُّوا أَرْبَعًا، فَإِنَّا قَوْمٌ سَفَرٌ"، وَغَزَوْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ، وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي إِلا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى يَرْجِعَ، وَحَجَجْتُ مَعَ عُمَرَ حَجَّاتٍ، فَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي إِلا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى يَرْجِعَ، وَصَلاهَا عُثْمَانُ سَبْعَ سِنِينَ مِنْ إِمَارَتِهِ رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَجِّ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ثُمَّ صَلاهَا بَعْدَهَا أَرْبَعًا. زَادَ أَحْمَدُ: ثُمَّ قَالَ: هَلْ بَيَّنْتُ لَكُمْ؟ قُلْنَا: نَعَمْ. وَلَفْظُ الْحَدِيثِ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ
جناب ابونضرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے سامنے کھڑا ہوا، اُس نے اُن کی سواری کی لگام پکڑلی اور اُن سے نماز خوف کے بارے میں سوال کیا تو وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اس نوجوان نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میں تم سب کو بیان کردوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی غزوات میں شرکت کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ واپس آنے تک صرف دو دو رکعات ہی پڑھتے تھے - جناب زیاد بن ایوب کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج بھی کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ واپس آگئے۔ جناب احمد بن عبدہ اور زیاد بن ایوب دونوں کی روایت میں ہے کہ فتح مکّہ کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ میں اٹھارہ راتیں قیام پذیر رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعات ہی پڑھتے رہے، پھر آپ اہل مکّہ سے فرماتے: ”تم چار رکعتیں (پوری) ادا کرلو کیونکہ ہم مسافر لوگ ہیں اور میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی جنگ میں شرکت کی اور اُن کے ساتھ حج بھی کیا ہے، وہ بھی واپس آنے تک دو دو رکعتیں ہی ادا کرتے تھے اور میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کئی حج کیے ہیں، وہ بھی دو رکعات ہی ادا کرتے تھے حتّیٰ کہ واپس آجاتے اور سیدنا عثمان رضی اللہ بھی اپنی خلافت کے ابتدائی سات سالوں میں حج کے دوران دو رکعات ہی پڑھتے رہے حتّیٰ کہ واپس مدینہ آجاتے۔ پھر (ان سات سالوں) کے بعد اُنہوں نے (مکمّل نماز) چار رکعات پڑھنی شروع کر دیں۔ جناب احمد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر پوچھا، کیا میں نے تمہیں مسئلہ بیان کر دیا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ جی ہاں۔ اس روایت کے الفاظ جناب احمد بن عبدہ کی روایت کے ہیں۔