سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہماری ایک بڑی چٹائی تھی جسے ہم دن کے وقت بچھا لیتے تھے اور رات کے وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُسے سمیٹ کر اُس پر نماز ادا فرماتے۔ پھر کچھ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کا پتہ لگالیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا علم ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اتنے عمل کی ذمہ داری اُٹھاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ (ثواب دیتے ہوئے) نہیں تھکے گا حتّیٰ کہ تم ہی (عمل کرتے کرتے) تھک جاؤ گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ تھا جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی (نفل) نماز ادا فرماتے تو اس پر ہمیشگی اختیار کرتے۔ یہ جناب عبد الجبار کی روایت ہے اور جناب سعید بن عبدالرحمان کی روایت میں ہے کہ ” کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کی خبر سنی تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔“ اور یہ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں ڈرتا ہوں کہ مجھے تمہارے بارے میں کوئی ایسا حُکم نہ دے دیا جائے جس کی تم طاقت نہ رکھو۔“