صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
مقتدیوں کا امام کے پیچھے کھڑا ہونا اور اس میں وارد سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
1072. (121) بَابُ ذِكْرِ أَخْبَارٍ تَأَوَّلَهَا بَعْضُ الْعُلَمَاءِ نَاسِخَةً لِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَأْمُومَ بِالصَّلَاةِ جَالِسًا إِذَا صَلَّى إِمَامُهُ جَالِسًا.
1072. ان روایات کا بیان جنہیں بعض علماء نے تاویل کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حُکم کو ناسخ قرار دیا ہے جس میں آپ نے مقتدی کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے، جبکہ اس کا امام بھی بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو
حدیث نمبر: 1616
Save to word اعراب
نا سلم بن جنادة ، حدثنا وكيع . ح وحدثنا سلم ايضا، نا ابو معاوية ، كلاهما عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة ، قالت: لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات فيه جاءه بلال يؤذنه بالصلاة، فقال: " مروا ابا بكر فليصل بالناس"، قلنا: يا رسول الله، إن ابا بكر رجل اسيف، ومتى ما يقوم مقامك يبكي، فلا يستطيع، فلو امرت عمر ان يصلي بالناس. قال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس" ثلاث مرات" فإنكن صواحبات يوسف" قالت: فارسلنا إلى ابي بكر، فصلى بالناس، فوجد النبي صلى الله عليه وسلم خفة، فخرج يهادى بين رجلين، ورجلاه تخطان في الارض، فلما احس به ابو بكر، ذهب ليتاخر، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم: ان مكانك. قال: فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، فجلس إلى جنب ابي بكر، فكان ابو بكر ياتم بالنبي صلى الله عليه وسلم، والناس ياتمون بابي بكر رضوان الله عليه . هذا حديث وكيع وقال في حديث ابي معاوية: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدا، وابو بكر قائما. قال ابو بكر: قال قوم من اهل الحديث إذا صلى الإمام المريض جالسا، صلى من خلفه قياما إذا قدروا على القيام، وقالوا: خبر الاسود، وعروة، عن عائشة ناسخ للاخبار التي تقدم ذكرنا لها في امر النبي صلى الله عليه وسلم اصحابه بالجلوس إذا صلى الإمام جالسا. قالوا: لان تلك الاخبار عند سقوط النبي صلى الله عليه وسلم من الفرس، وهذا الخبر في مرضه الذي توفي فيه قالوا: والفعل الآخر ناسخ لما تقدم من فعله وقوله. قال ابو بكر: وإن الذي عندي في ذلك والله اسال العصمة والتوفيق انه لو صح ان النبي صلى الله عليه وسلم كان هو الإمام في المرض الذي توفي فيه لكان الامر على ما قالت هذه الفرقة من اهل الحديث، ولكن لم يثبت عندنا ذلك ؛ لان الرواة قد اختلفوا في هذه الصلاة على فرق ثلاثنا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وَحَدَّثَنَا سَلْمٌ أَيْضًا، نا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، كِلاهُمَا عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ جَاءَهُ بِلالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاةِ، فَقَالَ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَمَتَى مَا يَقُومُ مَقَامَكَ يَبْكِي، فَلا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ. قَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" ثَلاثَ مَرَّاتٍ" فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ" قَالَتْ: فَأَرْسَلْنَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِفَّةً، فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاهُ تَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، فَلَمَّا أَحَسَّ بِهِ أَبُو بَكْرٍ، ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ مَكَانَكَ. قَالَ: فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ . هَذَا حَدِيثُ وَكِيعٍ وَقَالَ فِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا، وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ إِذَا صَلَّى الإِمَامُ الْمَرِيضُ جَالِسًا، صَلَّى مَنْ خَلْفَهُ قِيَامًا إِذَا قَدَرُوا عَلَى الْقِيَامِ، وَقَالُوا: خَبَرُ الأَسْوَدِ، وَعُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَاسِخٌ لِلأَخْبَارِ الَّتِي تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا فِي أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ بِالْجُلُوسِ إِذَا صَلَّى الإِمَامُ جَالِسًا. قَالُوا: لأَنَّ تِلْكَ الأَخْبَارَ عِنْدَ سُقُوطِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْفَرَسِ، وَهَذَا الْخَبَرَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ قَالُوا: وَالْفِعْلُ الآخَرُ نَاسِخٌ لِمَا تَقَدَّمَ مِنْ فِعْلِهِ وَقَوْلِهِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَإِنَّ الَّذِي عِنْدِي فِي ذَلِكَ وَاللَّهَ أَسْأَلُ الْعِصْمَةَ وَالتَّوْفِيقَ أَنَّهُ لَوْ صَحَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ هُوَ الإِمَامَ فِي الْمَرَضِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ لَكَانَ الأَمْرُ عَلَى مَا قَالَتْ هَذِهِ الْفِرْقَةُ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَلَكِنْ لَمْ يَثْبُتْ عِنْدَنَا ذَلِكَ ؛ لأَنَّ الرُّوَاةَ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي هَذِهِ الصَّلاةِ عَلَى فِرَقٍ ثَلاثٍ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مرض میں بیمار ہوئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع کرنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، بیشک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نہایت نرم دل اور بہت جلد رو دینے والے شخص ہیں، وہ جب آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگ جائیں گے اور نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔ اس لئے اگر آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حُکم دیں تو بہتر ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ حُکم دیا - پھر فرمایا: بلاشبہ تم حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصّہ والی عورتوں جیسی ہو - سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، لہٰذا ہم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا (وہ تشریف لائے) اور لوگوں کو نماز پڑھائی - (اس دوران) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ افاقہ محسوس کیا تو دو آدمیوں کا سہارا لیکر تشریف لائے جبکہ آپ کے قدم مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے - جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی آمد کو محسوس کیا تو پیچھے ہٹنے لگے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ گئے - اس طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ کر رہے تھے اور لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدأ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ یہ حدیث جناب وکیع کی ہے اور جناب ابومعاویہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ محدثین کے ایک گروہ کا یہ کہنا ہے کہ جب بیمار امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے قیام کی طاقت رکھنے والے مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ جناب اسود اور عروہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ان احادیث کی ناسخ ہے جنہیں ہم نے گزشتہ اوراق میں ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے جبکہ اُن کا امام بھی بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو، فرماتے ہیں کہ چونکہ گزشتہ احادیث اُس وقت کی ہیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گرگئے تھے (اور موچ آنے کی وجہ سے آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی تھی) اور اس حدیث میں مذکور واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری کے وقت کا ہے جس بیماری میں آپ وفات پاگئے تھے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل آپ کے سابقہ قول وفعل کے ناسخ ہے۔ امام بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے غلطی سے بچاؤ اور درست راہ کی توفیق کا سوال کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں میرے نزدیک درست ہے کہ اگر یہ بات صحیح ثابت ہو جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں خود ہی امام تھے تو پھر مسئلہ اسی طرح ہوگا جس طرح یہ اہل حدیث گروہ کہتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ اس نماز کے متعلق راویوں کا اختلاف ہے اور ان کے تین گروہ بن گئے ہیں۔ (جو درج ذیل ہیں)۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.