من كتاب الاستئذان کتاب الاستئذان کے بارے میں 12. باب في فَضْلِ التَّسْلِيمِ وَرَدِّهِ: سلام کرنے اور جواب دینے کی فضیلت کا بیان
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: السلام علیکم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا: ”دس۔“ پھر دوسرے صحابی آئے اور اس طرح سلام کیا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی جواب دیا اور فرمایا: ”بیس۔“ پھر ایک اور صحابی حاضر ہوئے، سلام کیا اور کہا: السلام علیکم ورحمۃ الله و برکاتہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا: ”تیس“ (یعنی ان کے لئے تین کلموں پر تیس نیکیاں ہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2682]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5195]، [ترمذي 2690]، [طبراني 134/18، 280، ويشهد له ما فى صحيح ابن حبان 493] وضاحت:
(تشریح حدیث 2675) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف السلام علیکم کہنے پر دس نیکیاں، ورحمۃ اللہ کے اضافے پر بیس نیکیاں، اور برکاتہ کے اضافہ پر تیس نیکیاں ہیں، اور اسی طرح جواب دینے والے کے لئے نیکیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿وَإِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا .....﴾ [النساء: 86] » ترجمہ: ”جب تم سے سلام کیا جائے تو اس سے اچھا جواب دو، یا کم از کم جیسا کسی نے سلام کیا ویسا ہی جواب دو...“۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|