من كتاب الاستئذان کتاب الاستئذان کے بارے میں 21. باب لَعْنِ الْمُخَنَّثِينَ وَالْمُتَرَجِّلاَتِ: عورتوں کی مشابہت کرنے والے مخنث اور مردوں کے مشابہہ بننے والی عورتوں کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخنث مردوں پر اور مردوں کی چال ڈھال اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی اور فرمایا: ”ان زنانے مردوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں ہجڑے کو نکال باہر کیا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فلاں یا فلانہ (مرد یا عورت) کو نکال دیا تھا۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ شک مجھے ہوا ہے۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2691]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5885، 5886]، [ترمذي 2785]، [أبويعلی 2433]، [شرح السنة 3207] وضاحت:
(تشریح حدیث 2684) «”مخنّث“» مرد و عورت کی درمیانی مخلوق ہے جو نہ مرد ہوتے ہیں اور نہ عورت۔ عرفِ عام میں ان کو ہیجڑے کہا جاتا ہے۔ مردوں کا زنانی حرکات اختیار کرنا، بال، کپڑے، چال چلن میں عورتوں کی مشابہت اور عورتوں کا اسی طرح مردوں کی مشابہت اختیار کرنا نہایت مذموم فعل ہے، اور ایسے لوگ بڑے منہ پھٹ، بے غیرت، بے حیاء ہوتے ہیں، اس لئے ان کو گھروں سے باہر نکال دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ آج کل فیشن کے طور پر اسکول کالج کے لڑکے اور لڑکیاں ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ ان مذموم حرکات سے روکتی ہے۔ الله تعالیٰ نے جس جنس کو جیسا بنایا ہے اس کو ویسے ہی رہنا چاہیے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
زرعہ بن عبدالرحمٰن نے اپنے والد عبدالرحمٰن (بن جرہد رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا جو اصحابِ صفہ میں سے تھے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بیٹھے اور میری ران کھلی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو ڈھک لو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ران عورة ہے (یعنی چھپانے کی چیز ہے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد وله شواهد أيضا يتقوى بها، [مكتبه الشامله نمبر: 2692]»
اس حدیث کی اسناد جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4014]، [ترمذي 2795]، [ابن حبان 1710]، [موارد الظمآن 353]، [الحميدي 880]۔ سنن ابی داؤد میں ہے کہ جرہد اصحابِ صفہ میں سے تھے۔ نیز عبدالرحمٰن بن جرہد کا شمار صحابہ میں نہیں ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 2685) امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مسجد میں ران، جانگھ عورۃ ہے، حمام میں نہیں۔ اکثر علماء اور مجتہدین کا قول یہی ہے کہ ران عورۃ ہے اس کو چھپانا چاہیے، اس سے معلوم ہوا کہ جانگھیا نیکر پہننا درست نہیں کیونکہ ران اس سے کھلی رہتی ہے، بلکہ شرم گاہ تک کھل جاتی ہے، اور لڑکی تو سر سے پیر تک عورۃ ہے اس لئے مسلمان لڑکیوں کا اسکول میں فراک، نیکر، اسکرٹ وغیرہ پہننا بالکل حرام ہے۔ «فاعتبروا يا أولي الأبصار» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد وله شواهد أيضا يتقوى بها
|