من كتاب الاستئذان کتاب الاستئذان کے بارے میں 22. باب في النَّهْيِ عَنْ دُخُولِ الْمَرْأَةِ الْحَمَّامَ: عورت کو اس حمام میں جانے کی ممانعت جہاں مرد نہاتے ہوں
قال ابو محمد: اخبرنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن منصور، عن سالم، عن ابي المليح، عن عائشة، هذا الحديث. [إسناده صحيح وهو مكرر سابقه] سالم بن ابی الجعد نے کہا: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں کچھ حمص (شام) کی عورتیں حاضر ہوئیں، ان سے کچھ پوچھنا چاہتی تھیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: شاید تم ان عورتوں میں سے ہو جو حمام میں جاتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”جس عورت نے اپنے خاوند کے گھر کے سوا کسی اور جگہ اپنے کپڑے اتارے تو اس نے وہ پردہ پھاڑ ڈالا جو اس کے اور اللہ کے درمیان ہے۔“
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے خبر دی اسرائیل سے، انہوں نے منصور سے، انہوں نے سالم سے، انہوں نے ابوالملیح سے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث روایت کی۔ تخریج الحدیث: «إسناده منقطع أبو الجعد سالم لم يسمع من عائشة ولكن الحديث صحيح بالإسناد التالي. ويعلى هو: ابن عبيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2693، 2694]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، کیونکہ سالم بن ابوالجعد نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا، لیکن امام دارمی رحمہ اللہ نے دوسری سند میں سالم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان ابوالملیح کا ذکر کیا ہے جنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے، لہٰذا سند صحیح ہے، اور ابوداؤد و ترمذی و ابن ماجہ میں اسی طرح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4010]، [ترمذي 2803]، [ابن ماجه 3750]، [أبويعلی 4390]، [المستدرك للحاكم 289/4] وضاحت:
(تشریح حدیث 2686) پہلے زمانے میں گھروں میں غسل خانوں کا رواج نہ تھا اور مرد و عورت باہر جا کر حمامات میں نہایا کرتے تھے، جہاں مالش بھی ہوتی، گرم پانی ملتا، اور اکثر عورت مرد یکجا ہو جاتے، عریانیت و فحاشی، فسق و فجور تک نوبت پہنچ جاتی۔ آج بھی ہندوستان و پاکستان میں بعض مقامات میں ایسے حمام پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ اس میں اختلاط مرد و زن اور بے حیائی ہوتی ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حمامات میں جانے سے منع فرمایا۔ ہاں! مرد کے لئے کامل ستر پوشی کے ساتھ جہاں اختلاط نہ ہو نہانا جائز ہے، اور مرد کا مرد کے سامنے بھی کشفِ ستر جائز نہیں، چہ جائے کہ مرد عورت کے سامنے یا عورت مرد کے سامنے برہنہ ہو۔ یہ اللہ کے پردے کو چاک کرنا ہے، یعنی شرم و حیا، تقویٰ و پرہیزگاری اور عصمت و عفت کا پردہ ایسا کرنے سے پھٹ جاتا ہے، کیونکہ عورت جب اپنے گھر کے علاوہ کہیں کپڑے اتارے گی تو اس کا فسق و فجور میں مبتلا ہونا یقینی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع أبو الجعد سالم لم يسمع من عائشة ولكن الحديث صحيح بالإسناد التالي. ويعلى هو: ابن عبيد
|