من كتاب الاستئذان کتاب الاستئذان کے بارے میں 52. باب مَا يَقُولُ إِذَا انْتَبَهَ مِنْ نَوْمِهِ: جاگنے کے وقت کیا دعا کرنی چاہیے؟
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نیند سے بیدار ہوتے تو دعا فرماتے تھے: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُوْرٌ» ۔ تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہم کو سونے کے بعد اٹھایا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2728]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6312]، [أبوداؤد 5049]، [ترمذي 3417]، [ابن ماجه 3880]، [الأدب المفرد 1205]، [ابن حبان 5532]، [عمل اليوم و الليلة 707] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات کو بیدار ہو کر یہ پڑھے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ ........... وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کے لئے ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لئے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس کی ذات پاک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور الله سب سے بڑا ہے اور الله کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی ہمت۔ پھر یہ کہے: اے اللہ! میری مغفرت فرما“ یا یہ کہا کہ ”کوئی دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوگی، پھر اگر اس نے وضو کیا اور نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2729]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1154]، [أبوداؤد 5060]، [ترمذي 3414]، [ابن ماجه 3878]، [ابن حبان 2596] وضاحت:
(تشریح احادیث 2720 سے 2722) ان احادیث سے سو کر اٹھنے یا رات کو بیدار ہونے کے وقت ان ادعیہ و اذکار کو پڑھنے کی فضیلت معلوم ہوئی۔ ابن بطال نے اس حدیث کے ضمن میں لکھا ہے کہ الله تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو مسلمان بھی رات میں اس طرح بیدار ہو کہ اس کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان و یقین، اس کی کبریائی اور سلطنت کے سامنے تسلیم اور بندگی، اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس پر اس کا شکر و حمد، اور اس کی ذاتِ پاک کی تنزیہ و تقدیس سے بھر پور کلمات زبان پر جاری ہو جائیں تو الله تعالیٰ اس کی دعا بھی قبول کرتا ہے اور اس کی نماز بھی بارگاہِ رب العزت میں مقبول ہوتی ہے، اس لئے جس شخص تک بھی یہ حدیث پہنچے اسے اس حدیث پر عمل کو غنیمت سمجھنا چاہیے، اور اپنے رب کے لئے تمام اعمال میں نیّتِ خالص پیدا کرنی چاہیے کہ سب سے پہلی شرطِ قبولیت یہی خلوص ہے۔ (تفہیم البخاری)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|