من كتاب الاستئذان کتاب الاستئذان کے بارے میں 7. باب في رَدِّ السَّلاَمِ عَلَى أَهْلِ الْكِتَابِ: اہل کتاب کے سلام کا جواب دینے کا بیان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہودیوں میں سے کوئی جب سلام کرتا ہے تو کہتا ہے «السام عليك» تمہیں موت آئے (سو) تم جواب میں کہو: «عليك» یعنی تمہارے ہی اوپر موت پڑے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في كتاب السلام، [مكتبه الشامله نمبر: 2677]»
اس روایت کی سند بہت قوی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6257]، [مسلم 2164]، [أبوداؤد 5206]، [ابن حبان 502] وضاحت:
(تشریح حدیث 2670) [بخاري شريف 6256] میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: السام علیکم (تمہیں موت آ ئے)، میں سمجھ گئی اور میں نے جواب دیا: علیکم السام واللعنتہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! صبر سے کام لو کیونکہ الله تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ “ میں نے عرض کیا: آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا تھا؟ فرمایا: ”میں نے ان کا جواب دے دیا تھا کہ ”علیکم“ اور تمہیں بھی۔ “ یعنی جو تم نے کہا وہی تمہیں بھی نصیب ہوا۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ کوئی غیر مسلم اس طرح کہے تو اس کا جواب علیک یا علیکم سے دینا چاہیے کہ تمہارے لئے بھی وہی جس کے تم مستحق ہو یا جو تم ہمارے لئے چاہتے ہو۔ علماء نے کہا ہے کہ ”علیکم“ کہنا ”وعلیکم“ سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے، اور السام واللعنتہ کہنے سے روکا اس لئے کہ اس میں سخت کلامی اور خشونت ہے، والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في كتاب السلام
|