من كتاب الاستئذان کتاب الاستئذان کے بارے میں 10. باب إِذَا قُرِئَ عَلَى الرَّجُلِ السَّلاَمُ كَيْفَ يَرُدُّ: جب کسی کو سلام کیا جائے تو جواب کس طرح دے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مبارکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”اے عائش! یہ جبریل علیہ السلام ہیں جو تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
انہوں نے کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دیکھ رہے تھے جو میں نہ دیکھتی تھی (یعنی جبریل علیہ السلام کو)۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2680]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6249]، [مسلم 2447/91]، [أبوداؤد 5232]، [ترمذي 2693]، [نسائي 3958]، [ابن ماجه 3696]، [أبويعلی 4781]، [ابن حبان 7098]، [الحميدي 279] وضاحت:
(تشریح حدیث 2673) اس حدیث سے کسی اجنبی کا اجنبی عورت کو سلام کرنا اور عورت کا اسے جواب دینا ثابت ہوا، نیز یہ کہ اس کا جواب وعلیکم السلام نہیں بلکہ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سے دینا چاہیے۔ اس حدیث سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ روح القدس انہیں سلام کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک اور لطف و کرم بھی معلوم ہوا، اور یہ کہ لاڈ و پیار میں شوہر اپنی بیوی کا نام بدل کر کسی پیارے نام سے پکار سکتا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائش!“ عائشہ نہیں کہا، « ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ [الأحزاب: 21] » ترجمہ: ”یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں عمدہ نمونہ موجود ہے۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|