من كتاب الاستئذان کتاب الاستئذان کے بارے میں 1. باب الاِسْتِئْذَانِ ثَلاَثٌ: تین مرتبہ اجازت لینے کا بیان
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس داخل ہونے کی اجازت مانگی لیکن انہیں اجازت نہ ملی، چنانچہ وہ واپس ہوگئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم واپس کیوں چلے گئے؟ عرض کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اجازت طلب کرنے والا داخلے کی تین بار اجازت مانگے، اگر اجازت مل جائے تو داخل ہو جائے ورنہ واپس لوٹ جائے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کو اس بات پر گواہ لانا ہوگا ورنہ میں تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کروں گا۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور میں بھی اس جماعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ مسجد میں موجود تھا۔ سیدنا ابوموسیٰ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی انہیں تنبیہ کی وجہ سے بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: کہ میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کسی آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہو تو میرے ساتھ اس کی گواہی دے، سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سر اٹھایا اور کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتا دو کہ میں نے بھی تمہارے ساتھ یہ سنا ہے اور دیگر صحابہ کرام نے بھی ان کی تائید کی، چنانچہ یہ سن کر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ خوش ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح أبو النعمان هو: محمد بن الفضل وداود هو: ابن أبي هند وأبو نضرة هو: المنذر بن مالك، [مكتبه الشامله نمبر: 2671]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابونعمان کا نام محمد بن الفصل ہے، اور داؤد: ابن ابی ہند ہیں، اور ابونضرۃ کا نام منذر بن کعب ہے، اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6245]، [مسلم 2153]، [أبوداؤد 5180]، [ترمذي 2690]، [ابن ماجه 3706]، [أبويعلی 981]، [ابن حبان 5806]، [الحميدي 751] وضاحت:
(تشریح حدیث 2664) اس حدیث میں آدابِ ملاقات و استیذان کا بہترین اصول بیان کیا گیا ہے۔ کسی بھی گھر، مکتب، آفس وغیرہ میں داخل ہونے سے پہلے تین بار اجازت طلب کرنی چاہیے۔ طریقہ خواہ کیسا ہی ہو، اگر صاحبِ خانہ اجازت دے تو داخل ہو جائے ورنہ واپس لوٹ جائے، بغیر اجازت اندر گھسنا درست نہیں، کیونکہ ہر آدمی کے ساتھ اسرار و حالات ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی کی دخل اندازی پسند نہ کرے گا، اور جو لوگ ہر وقت گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں ان کو ہر وقت نہیں، ہاں فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت جب قیلولے کا وقت ہوتا ہے، اور بعد نمازِ عشاء ضرور اجازت لینی چاہیے، جیسا کہ آیتِ شریفہ: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ .....﴾ [النور: 58] » میں ذکر ہے۔ ترجمہ: ”اے مومنو! تم سے تمہارے مملوک غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں اپنے آنے کی تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے، نمازِ فجر سے پہلے، ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار کر رکھتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد .....۔ “ اس حدیث میں امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا رعب و دبدبہ، بصیرت اور روایت و قبولِ حدیث میں شدتِ احتیاط ثابت ہوتا ہے تاکہ ہر کوئی رسولِ ہدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بھی بات کو منسوب کرنے میں احتیاط سے کام لے۔ اس میں نہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی عدالت میں شک و شبہ کی گنجائش ہے اور نہ خبر واحد کے قبول کرنے سے انکار ہے، جیسا کہ علمائے کرام نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح أبو النعمان هو: محمد بن الفضل وداود هو: ابن أبي هند وأبو نضرة هو: المنذر بن مالك
|