سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
36. باب في الْعَزْلِ:
عزل کا بیان
حدیث نمبر: 2261
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ يَرُدُّ الْحَدِيثَ إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّه، الرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْجَارِيَةُ فَيُصِيبُ مِنْهَا، وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ، أَفَيَعْزِلُ عَنْهَا؟ وَتَكُونُ عِنْدَهُ الْمَرْأَةُ تُرْضِعُ فَيُصِيبُ مِنْهَا وَيَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ. أَفَيَعْزِلُ عَنْهَا؟ قَالَ: "لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّمَا هُوَ الْقَدَرُ". قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلْحَسَنِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَكَأَنَّ هَذَا زَجْرٌا، وَاللَّهِ لَكَأَنَّ هَذَا زَجْرٌا!!.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آدمی کے پاس لونڈی ہوتی ہے، وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اسے حمل ہو، کیا وہ اس سے عزل کر سکتا ہے؟ ایسے ہی آدمی کے پاس عورت (بیوی) ہوتی ہے اور وہ دودھ پلاتی ہے، مرد اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کو حمل ہو، ایسی صورت میں کیا وہ اپنی بیوی سے عزل کر سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ حرج نہیں اگر تم عزل نہ کرو، یہ تو تقدیر کی بات ہے۔“ ابن عون نے کہا: میں نے یہ روایت حسن سے بیان کی تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اس جملہ ( «لا عليكم») میں عزل سے باز رہنے کی تنبیہ ہے، عزل سے اس میں جھڑکنا، باز رکھنا ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2270]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1441]، [نسائي 3327]، [أبويعلی 1306]
وضاحت: (تشریح حدیث 2260)
اس حدیث کا بھی یہی مفہوم نکلا کہ نطفہ قرار پانا اور بچہ پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے معین ومقدر ہے، اس میں کسی کی کارستانی کا کوئی دخل نہیں، اگر اللہ تعالیٰ کو حمل ٹھہرانا ہوگا تو تم کو اس کام سے باز رکھے گا اور نطفے کو تم باہر نہ ڈال سکو گے، اور اس کام سے یہ خیال ہی نہ کرنا چاہیے کہ جب ہمارا جی چاہے گا نطفہ ٹھہرا دیں گے، یہ خام خیالی اور سراسر باطل چیز ہے۔
(وحیدی، بتصرف بسيط)۔
اس حدیث میں عزل سے کراہت کا ایک اور پہلو ہے، وہ یہ کہ عزل کرنے والا گویا تقدیر کو رد کرنے کی کوشش کرنے والا ہے۔
استاد محترم شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ شرح بلوغ المرام میں لکھتے ہیں: اور دورِ جدید کے جو ڈاکٹر رگ کاٹ کر قوتِ تولید کو قطع کر دیتے ہیں تاکہ نسل کو محدود کر دیا جائے گو قوتِ جماع اس سے باقی رہتی ہے تو اس کو عزل پر قطعاً قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان دونوں (حالتوں) کے درمیان عظیم فرق ہے، عزل تو وقتی اور ظنی سبب ہے نہ کہ منع حمل کے لئے حقیقی سبب، اس کے باوجود عازل تو خود مختار ہے، اگر چاہے تو یہ فعل کرے اور چاہے اسے ترک کرے، اور جہاں تک رگِ تولید کے کاٹ دینے کا تعلق ہے تو وہ ایسا سبب ہے جو قطعی ہے، نیز اس میں اللہ کی تخلیق میں بدل دینا، اور جسمانی نظام کا تبدیل ہونا، اور بعض قوی کے مطابق عمل کو باطل کرنا اور تباہ کن بیماریوں کی جانب پہنچا دینا ہے، جیسے سرطان (کینسر) کا مرض ہے جو کٹی ہوئی جگہ سے دل اور پھیپھڑے وغیرہ تک سرایت کر جاتا ہے، ہر باخبر آدمی پر اس کے برے نتائج اور آثار مخفی اور پوشیدہ نہیں (انتہیٰ کلامہ رحمہ اللہ)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح