جنازہ کے بیان میں जनाज़े के बारे में جب کوئی بچہ اسلام لایا اور پھر انتقال کر گیا تو کیا اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور کیا بچے پر اسلام کی دعوت پیش کی جا سکتی ہے؟ “ जब कोई बच्चा इस्लाम लाया और फिर मरगया, तो क्या उसपर नमाज़ नमाज़ पढ़ी जाएगी और क्या बच्चे को इस्लाम की ओर बुलाया जासकता है ? ”
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ ابن صیاد کے پاس گئے یہاں تک کہ اس کو بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس کچھ لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا اور ابن صیاد (اس وقت) قریب بلوغ کے تھا۔ اس کو (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لے آنا) معلوم نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسے مارا۔ پھر ابن صیاد سے فرمایا: ”کیا تو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ میں، اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔“ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ اس کے بعد ابن صیاد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ ”میں اللہ کا رسول ہوں“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے علیحدہ ہو گئے اور فرمایا: ”میں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لاتا ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تو کیا دیکھتا ہے؟“ ابن صیاد نے جواب دیا کہ ”میرے پاس ایک سچا آتا ہے اور ایک جھوٹا“ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے اوپر بات خلط ملط کر دی گئی۔“ اس کے بعد اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تیری نسبت ایک بات اپنے دل میں رکھ لی ہے، بتا وہ کیا ہے؟“ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الدخان کی آیت ((فارتقب یوم تاتی السّماء بدخانٍ مّبینٍ)) کا تصور کیا تھا) تو ابن صیاد نے جواب دیا کہ ”وہ دخ ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔“ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم ہرگز اس پر قابو نہیں پا سکتے اور اگر وہ نہیں ہے تو اس کے قتل کرنے میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس کے بعد (ایک مرتبہ پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ ابن صیاد سے پوشیدہ طور پر قبل اس کے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے، کچھ سنیں۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ لیٹا ہوا اپنی ایک چادر میں لپٹا ہوا تھا اس سے کچھ گنگنانے کی آواز آ رہی تھی پس ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے دیکھ لیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کے درختوں میں چھپ (چھپ کر جا) رہے تھے تو اس نے ابن صیاد سے کہا کہ اے صاف! اور صاف ابن صیاد کا نام تھا۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے تو ابن صیاد اٹھ بیٹھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ عورت اس کو اس کے حال پر رہنے دیتی یعنی میرے آنے کی اطلاع نہ دیتی تو حقیقت حال واضح ہو جاتی۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ بیمار ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا: ”تو مسلمان ہو جا۔“ تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور اس کے پاس ہی وہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے باپ نے اس سے کہا کہ تو ابوالقاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کر پس وہ مسلمان ہو گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت یہ فرما رہے تھے: ’ ’ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے لڑکے کو آگ سے بچا لیا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا کیا جاتا ہے مگر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا لیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی، جس طرح جانور صحیح و سالم بچہ جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی ناک کان کٹا ہوا دیکھتے ہو؟“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کر کے یہ آیت پڑھتے تھے: ”اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت تبدیل نہیں کی جا سکتی یہی صحیح اور بالکل سیدھا دین ہے۔“ (سورۃ الروم آیت: 30)
|