المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ مدینہ منورہ کی فضیلت “ मदीना मुनव्वरा की फ़ज़ीलत ”
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بدو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلام پر بیعت کی، لیکن اسے مدینہ میں بخار ہو گیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے میری بیعت واپس کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔ وہ دوسری مرتبہ آیا اور کہا: مجھے میری بیعت واپس کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔ وہ تیسری دفعہ آیا اور کہا: مجھے میری بیعت واپس کر دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا (بالآخر اجازت نہ ملنے کے باوجود) وہ بدو مدینہ منورہ سے نکل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ تو دھونکنی اور بھٹی ہے، یہ خبیث چیز کی نفی کر دیتا ہے اور طیب چیز کو نکھارتا ہے۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (مدینہ) طیبہ ہے، یہ (گناہوں کی) خباثت کی اس طرح نفی کرتا ہے جیسے آگ چاندی کے کھوٹ کو ختم کر دیتی ہے۔“ یہ حدیث سیدنا زید بن ثابت، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا جابر، سیدنا ابوامامہ اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔
سیدہ صفیہ بنت ابو عبید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مدینہ (منورہ) میں فوت ہونے کی طاقت رکھتا ہو، اسے چاہیئے کہ وہ مدینہ (منورہ) میں فوت ہو، کیونکہ جو یہاں فوت ہو گا، اس کی شفاعت کی جائے گی یا اس کی شہادت دی جائے گی۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس آیت «فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ» ”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو۔“ (۴-النساء:۸۸) کے بارے میں کہا: جب صحابہ کرام غزوۂ احد سے واپس لوٹے تو وہ (منافقوں کے بارے میں) دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک کا خیال تھا کہ ان کو قتل دیا جائے اور دوسرے کا خیال تھا کہ قتل نہ کیا جائے۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: «فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ» ”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو۔“ } اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہ (مدینہ) طیّبہ ہے، یہ خباثت کی نفی کرتا ہے، جیسے آگ لوہے کی میل کچیل صاف کر دیتی ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”مجھے ایسی بستی میں جانے کا حکم دیا گیا ہے جس (کے باسی) دوسری بستیوں پر غالب آ جائیں گے۔ لوگ اسے یثرب کہتے ہیں، جبکہ وہ مدینہ ہے، جو لوگوں سے برائیوں کو اس طرح دور کرتی ہے، جس طرح دھونکنی لوہے کی میل کچیل صاف کر دیتی ہے۔“ ایک اور روایت میں ہے: ”لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی اپنے چچیرے بھائی یا کسی رشتہ دار کو یوں بلائے گا: (مدینہ کو چھوڑو اور) خوشحالی کی طرف آؤ، آسودگی کی طرف آؤ۔ لیکن مدینہ میں بسیرا کرنا ان کے لیے بہتر ہو گا۔ کاش انہیں اس حقیقت کا علم ہوتا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب کوئی آدمی مدینہ سے بےرغبتی کرتے ہوئے نکل جائے گا، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس سے بہترین فرد کو لے آئے گا۔ آگاہ رہو! مدینہ تو دھونکنی ہے جو خبیث لوگوں کو خارج کر دیتا ہے۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک مدینہ شر پسند لوگوں (کو جلاوطن کر کے ان کی) یوں نفی نہ کر دے گا جس طرح کہ بھٹی لوہے کی کھوٹ کو ختم کر دیتی ہے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اہل مدینہ کو ڈرایا، اللہ اس کو خوف دلائے گا۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما بیمار ہو گئے، میں ان کے پاس گئی اور پوچھا: ابا جان! کیا حال ہے؟ بلال! کیسے ہو؟ وہ کہتی ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیمار ہوتے تو کہا کرتے تھے: ہر کوئی صبح کے وقت اپنے اہل میں ہوتا ہے اور موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جب بخار سے شفایاب ہوتے تو کمزور پنڈلی کو اٹھاتے اور گاتے ہوئے کہتے: ہائے کاش! مجھے یہ پتہ چل جائے کہ کیا میں ایک رات گزاروں گا وادی میں اور میرے اردگرد اذخر اور جلیل قسم کے گھاس ہوں گے میں مجنہ چشمے کے پانی پر جاؤں گا کیا مجھے شامہ اور طفیل پہاڑ نظر آئیں گے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ہم کو مدینہ سے مکہ کی مثل یا اس سے بھی زیادہ محبت کرنا نصیب فرما دے، اس کو بیماریوں سے پاک کر دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت فرما اور اس میں پائے جانے والے بخار کو جحفہ میں منتقل کر دے۔“ مسند احمد کی روایت میں ہے: جب جحفہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو بلوغت سے پہلے ہی بخار اسے پچھاڑ دیتا تھا۔
|