المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ مہاجرین کی فضیلت “ महाजिरों की फ़ज़ीलत ”
عبدالرحمٰن اپنے باپ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجرین کے لیے قیامت والے دن سونے کے منبر ہوں گے، وہ ان پر بیٹھیں گے اور ہر قسم کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔“
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجرین دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے دوست ہوں گے اور قریش کے طلقا اور ثقیف کے عتقا بھی دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔“
سیدنا واثلہ بن اسقع سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں اصحاب صفہ میں سے تھا، میں نے یہ دیکھا کہ ہمارا یہ حال تھا کہ ہم میں سے کسی شخص کے پاس مکمل لباس نہیں تھا اور گرد و غبار اور میل کچیل کی وجہ سے پسینے سے ہمارے جسم پر لکیریں پڑ جاتی تھیں۔ (ایک دن) اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”فقراء مہاجرین کے لیے خوشخبری ہو۔“ ہمارے پاس اچانک ایک اچھے لباس والا آدمی آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی کلام ارشاد فرماتے، وہ تکلف کے ساتھ آپ کی کلام سے افضل کلام کرتا۔ جب وہ چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ اس کو اور اس جیسے شخص کو ناپسند کرتا ہے۔ یہ چراگاہ میں چرنے والی گائیوں کی طرح اپنی زبانوں کو لوگوں کے لیے مروڑتے ہیں، اللہ تعالیٰ بھی ان کے چہروں اور زبانوں کو آگ میں مروڑے گا۔“
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے حوض (کی وسعت) عدن سے عمان تک ہے، اس کا پانی برف سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ وہاں آنے والوں میں اکثر فقراء مہاجرین کی ہو گی، جو اب پراگندہ بالوں والے اور میلے کپڑے والے ہیں، وہ آسودہ حال عورتوں سے شادی نہیں کرتے، بند دروازے ان کے لیے نہیں کھولے جاتے اور وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں، لیکن ان کے حقوق پورے نہیں کئے جاتے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا آپ کو میری امت کی اس جماعت کے بارے میں علم ہے جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گی؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جماعت مہاجرین کی ہے۔ وہ روز قیامت جنت کے دروازے پر آ کر دروازے کھولنے کا مطالبہ کریں گے۔ دربان ان سے پوچھے گا: آیا تمہارا حساب و کتاب ہو چکا ہے؟ وہ کہیں گے: کس موضوع پر ہم سے حساب کتاب لیا جائے؟ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مرتے دم تک ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر رہیں، سو وہ ان کے لیے دروازہ کھول دے گا اور وہ (داخل ہو کر) عام لوگوں کے داخلے سے پہلے چالیس سال کا قیلولہ بھی کر چکے ہوں گے۔“
|