المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مناقب و کرامات اور شہادت “ हज़रत सअद बिन मआज़ रज़ि अल्लाहु अन्ह के चमत्कार और शहादत ”
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ جب سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر ربّ تعالیٰ خوش ہوئے تو عرش جھوم گیا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کے اکيدر دومہ نے صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ریشم کا جبہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیب تن کیا، لوگوں کو تعجب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”کیا تمہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس جبے سے بہتر ہیں۔ ” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بطور ہدیہ دے دیا۔ انہوں نے کہا! اے اللہ کے رسول! آپ اسے ناپسند کرتے ہیں تو میں کیسے پہنوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! میں نے تو تیری طرف بھیجا ہے تاکہ تم کسی کو فروخت کر کے کوئی مال حاصل کر لو۔ “ یہ واقعہ ریشم کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت کے لیے ستر ہزار فرشتے نازل ہوئے، اس سے قبل اتنی بڑی تعداد زمین پر نازل نہیں ہوئی۔“ جب ان کو دفن کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سجان اللہ! اگر کوئی قبر کی گرفت سے بچ سکتا تو وہ سعد ہوتا، لیکن اسے بھی بھینچا گیا اور پھر کشادگی پیدا کر دی گئی۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نیک آدمی، جس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے، پر بھی قبر کو تنگ کر دیا گیا پھر کشادگی پیدا کر دی گئی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑا تھا، اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے تو رحمن کا عرش بھی جھومنے لگ گیا۔“ منافقوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ (سعد کی میت تو) بہت ہلکی ہے۔ جب یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دراصل لوگوں کے ساتھ فرشتے بھی سعد (کی چارپائی) اٹھانے میں (مدد کر رہے تھے)۔
محمود بن لبید کہتے ہیں کہ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے بازو کی رگ میں زخم لگ اور وہ بڑھ گیا۔ لوگوں نے ان کو رفیدہ نامی عورت کے پاس منتقل کر دیا، کیونکہ وہ زخمیوں کا علاج کرتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس سے گزرتے تو پوچھتے: ”تو نے کیسی شام پائی؟“ اور جب صبح کے وقت آتے تو کہتے ”تو نے کیسی صبح پائی؟“ وہ اپنی صورتحال واضح کرتے۔ یہاں تک کہ وہ رات آ گئی جس میں ان کی قوم نے انہیں وہاں سے منتقل کر دیا اور انہیں اٹھا کر بنو عبدالاشھل کے گھروں میں لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب عادت ان کا حال دریافت کرنے کے لیے تشریف لائے۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ انہیں لے گئے ہیں، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل دیے اور ہم بھی آپ کے ساتھ ہو لیے، آپ اتنی تیزی سے چلے کہ ہمارے جوتوں کے تسمے ٹوٹ گئے اور ہماری چادریں گردنوں سے گرنے لگ گئیں، صحابہ نے آپ سے شکایت کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے تو ہم کو تھکا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ان کو غسل دینے میں فرشتے ہم سے سبقت نہ لے جائیں، جیسا کہ وہ اس سے پہلے خظلہ کو غسل دے چکے ہیں۔ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تک پہنچے تو ان کو غسل دیا جا رہا تھا اور ان کی ماں رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی: او سعد! تیری ماں کی ہلاکت (تیری) عقلمندی اور سخاوت ( کے گم ہو جانے کی وجہ سے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نوحہ کرنے والی جھوٹ بولتی ہے، ماسوائے ام سعد کے۔“ پھر آپ اس کی میت کو لے کر نکلے، بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: سعد کی میت بہت ہلکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہلکی کیوں نہ ہو، کثیر تعداد میں فرشتے اترے، اتنے فرشتے کبھی بھی نازل نہیں ہوئے، وہ تمہارے ساتھ سعد کی میت کو اٹھا رہے تھے۔“ آپ نے فرشتوں کی تعداد بھی بتلائی تھی، لیکن مجھے یاد نہ رہی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں غزوہ خندق والے دن نکلی اور لوگوں کے پیچھے چل پڑی۔ میں نے چلتے چلتے پیچھے سے قدموں کی پرزور آواز سنی۔ جب میں نے ادھر توجہ کی، تو کیا دیکھتی ہوں کہ سعد بن معاذ ہیں اور ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس ہے، جس نے ڈھال اٹھا رکھی تھی۔ میں زمین پر بیٹھ گئی۔ سعد گزرے، انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اور اس کے کنارے نکلے ہوئے تھے، مجھے خطرہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں ان سے سعد کے اعضائے جسم (زخمی نہ ہو جائیں)۔ وہ گزرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے تھے: ذرا ٹھہرو کہ لڑائی زوروں پر آ جائے کتنی اچھی ہو گی موت، جب اس کا مقررہ وقت آ جائے گا وہ کہتی ہیں میں کھڑی ہوئی اور ایک باغ میں گھس گئی، وہاں (پہلے سے) چند مسلمان موجود تھے، ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ایک اور آدمی بھی تھا، اس نے خود پہنا ہوا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ بخدا! آپ نے تو بڑی جرأت کی ہے۔ آپ کو اس سے کیا اطمینان کہ آپ پر کوئی بلا آ پڑے یا کہیں بھاگنا پڑ جائے۔ عمر مجھے ملامت کرتے رہے، حتیٰ کہ مجھے یہ خواہش ہونے لگی کہ اسی وقت زمین پھٹے اور میں اس میں گھس جاؤں۔ ادھر جب اس بندے نے خود اتارا، تو معلوم ہوا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ تھے۔ اس نے کہا: عمر! آپ نے تو آج بہت باتیں کر دی ہیں۔ آج صرف اللہ تعالیٰ کی طرف فرار اختیار کرنا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک قریشی مشرک، جس کو ابن عرقہ کہتے تھے، نے سعد کو تیر مارا اور کہا: یہ لو نا، میں تو ابن عرقہ ہوں۔ وہ تیر ان کے بازو کی رگ میں لگا اور وہ کٹ گئی، سعد نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: یاللہ! مجھے (اس وقت تک) موت سے بچانا، جب تک بنوقریظ کے بارے میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب نہ ہو جائے۔ وہ جاہلیت میں سعد کے موالی کے حلیف تھے۔ پس ان کے زخم (سے بہنے ولا خون) رک گیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر (تندوتیز) ہوا بھیجی اور اس لڑائی میں مومنوں کے لیے کافی ہو گیا اور اللہ تعالیٰ طاقتور اور غالب ہے۔ ابوسفیان اپنے ساتھیوں سمیت تہامہ میں پہنچ گیا اور عیینہ بن بدر نے اپنے ساتھیوں سمیت نجد میں پناہ لی۔ بنوقریظہ (کے یہودی) واپس آ گئے اور قلعہ بند ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں لوٹ آئے، اسلحہ اتارا اور سعد کے لیے مسجد میں چمڑے کا ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ لیکن اسی اثناء میں جبریل علیہ السلام پہنچ گئے، ان کے دانتوں پر غبار چمک رہا تھا۔ انہوں نے کہا: ( اے محمد!) آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے؟ اللہ کی قسم! فرشتوں نے تو ابھی تک نہیں اتارا۔ چلیے بنو قریظہ کی طرف اور ان سے قتال کیجئیے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی خاطر اسلحہ زیب تن کیا اور لوگوں میں کوچ کرنے کا اعلان کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل پڑے اور بنوغنم، جو مسجد کے قریب سکونت پزیر تھے، کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا: ”کون تمہارے پاس سے گزرا ہے؟“، انہوں نے کہا: دحیہ کلبی گزرے ہیں، دراصل سیدنا دحیہ کلبی کی داڑھی، دانت اور چہرہ جبرائیل علیہ السلام کے مشابہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کے پاس پہنچے اور ان کا محاصرہ کر لیا، جو پچیس دن تک جاری رہا۔ جب ان پر محاصرے نے شدت اختیار کی اور ان کی تکلیف بڑھ گئی، تو ان سے کہا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی ہو جاؤ۔ انہوں نے ابولبابہ بن عبد المنذر سے مشورہ کیا، اس نے اشارہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تو قتل ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا: تو پھر سعد بن معاذ کے فیصلے کو قابل تسلیم سمجھ لیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سعد بن معاذ کے فیصلے پر راضی ہو جاؤ۔“ پس انہوں نے تسلیم کر کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بلا بھیجا۔ سو ایک گدھا لایا گیا، اس پر کھجور کے درخت کے چھال کی پالان تھی، سیدنا سعد کو اس پر سوار کر دیا گیا، ان کی قوم نے ان گھیر لیا اور کہا: اے ابوعمرو! وہ (بنوقریظ والے) آپ کے حلیف بھی ہیں، معاہد بھی ہیں، شکست و ریخت والے بھی ہیں اور تم جانتے ہو کہ وہ ایسے ایسے بھی ہیں۔ لیکن انہوں نے نہ ان کا جواب دیا اور نہ ان کی طرف توجہ کی، (چلتے گئے)، جب ان کے گھروں کے قریب جا پہنچے تو اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اب وہ وقت آ گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کروں۔ ابوسعید کہتے ہیں: جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اٹھو) اپنے سردار کی طرف جاؤ اور ان کو (گدھے سے) اتارو۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہمارا سردار تو اللہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو اتارو۔“ پس انہوں نے ان کو اتارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سعد! ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجوؤں کو قتل کر دیا جائے، ان کے بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے مالوں کو (مسلمانوں میں) تقسیم کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے تو وہی فیصلہ کیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فیصلہ تھا۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے: پھر سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی: اے اللہ! اگر تو نے ابھی تک اپنے نبی کی قسمت میں قریشیوں سے لڑنا رکھا ہوا ہے، تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھ اور اگر ان کے مابین جنگ و جدل ختم ہو گیا ہے، تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ وہ کہتی ہیں: ان کا زخم پھوٹ پڑا، حالانکہ وہ مندمل ہو چکا تھا اور وہاں انگوٹھی کی طرح کا نشان نظر آتا تھا اور وہ اس خیمہ میں واپس چلے گئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے نصب کروایا تھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما وہاں پہنچ گئے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، میں اپنے حجرے میں بیٹھی ہوئی عمر اور ابوبکر کے رونے کی آواز پہچان رہی تھی، وہ (صحابہ کرام) آپس میں ایسے ہی تھے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: کہ ”وہ آپس میں رحمدل ہیں۔“ علقمہ نےپوچھا: امی جان! اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کسی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو نہیں بہتے تھے، لیکن جب وہ غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک پکڑ لیتے تھے۔
|