المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا باعث رحمت و تزکیہ ٹھہرنا “ रसूल अल्लाह ﷺ की बद दुआ भी रहमत और पवित्रता का कारण बनजाती थी ”
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا، جو انس کی ماں تھیں، کے پاس ایک یتیم بچی تھی۔ ( ایک دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچی کو دیکھا اور پوچھا: ” تو یہاں ہے؟ تو تو بڑی ہو گئی ہے، تیری عمر نہ بڑھنے پائے۔“ یہ سن کر یتیمہ روتی ہوئی ام سلیم کے پاس پہنچی۔ ام سلیم نے پوچھا: بیٹی! کیا ہوا؟ بچی نے جواب دیا: اللہ کے نبی نے مجھے بددعا دی ہے کہ میری عمر یا میرا زمانہ طویل نہ ہونے پائے۔ ام سلیم نے جلدی جلدی چادر لپیٹی اور نکل پڑی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ام سلیم! تجھے کیا ہوا؟“ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے میری یتیمہ کو بددعا دی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کون سی ( ذرا وضاحت کرو)؟“ اس نے کہا: میری یتیمہ کہتی ہے کہ آپ نے اسے عمر بڑی نہ ہونے یا اس کا زمانہ طویل نہ ہونے کی بددعا دی ہے۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ”ام سلیم! کیا تجھے علم نہیں ہے کہ میں نے اپنے رب سے شرط لگائی کہ میں بشر ہوں، عام دوسرے انسانوں کی طرح خوش بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔ سو میں جس امتی پر ایسی بددعا کر دوں جس کا وہ حقدار نہ ہو تو وہ (اللہ میرے امتی) کے حق میں اس بددعا کو پاک کرنے والی، اس کا تزکیہ کرنے والی اور اسے روز قیامت اپنے قریب کر دینے والی بنا دے؟۔“
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے، انہوں نے آپ سے کوئی بات کی، جسے میں نہ سمجھ سکی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور ان پر لعن طعن کیا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے (طنزیہ انداز میں) کہا: اے اللہ کے رسول! جو بھلائی ان بیچاروں کو ملی ہے، وہ تو کسی کے حق میں نہیں آئی ہو گی؟ آپ نے پوچھا: ”وہ کیسے؟“، میں نے کہا: آپ نے ان پر لعن طعن اور سب و شتم کیا ( یہ ان کی بدبختی ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تجھے اس شرط کا علم نہیں، جو میں نے اپنے رب سے لگائی ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ! میں بشر ہی ہوں، میں جس مسلمان پر لعن طعن کروں یا اسے گالی گلوچ کروں، تو تو اس چیز کو اس کے حق میں باعث تزکیہ اور باعث اجر بنا دے۔“
|