المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت و عظمت “ हज़रत अबू बक्र रज़ि अल्लाहु अन्ह की फ़ज़ीलत ”
سیدنا ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، آپ نے مجھے زمین دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی زمین دی۔ ہم پر دنیا غالب آ گئی، کھجور کے ایک درخت کے بارے میں ہمارا جھگڑا ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میری زمین کی حد میں ہے۔ میں نے کہا: یہ میری حد میں ہے۔ میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان سخت کلامی ہوئی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا اور وہ خود بھی شرمندہ ہوئے۔ ( بالآخر) انہوں نے مجھے کہا: اے ربیعہ! مجھے یہی کلمہ کہو تاکہ بدلہ ہو جائے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تجھے ضرور کہنا پڑے گا، ورنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کروں گا۔ میں نے کہا میں ایسا (جملہ) نہیں کہوں گا۔ ربیعہ کہتے ہیں: ابوبکر زمین چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیے، میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ بنواسلم قبیلہ کے چند لوگ آئے اور انہوں نے کہا: اﷲ، ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، بھلا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیز کے متعلق تیرے خلاف فریاد کریں گے۔ حالانکہ انہوں نے تجھے ایسے ایسے بھی کہا ہے۔ میں نے کہا: تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، (غار ثور) میں دو میں سے دوسرے وہ تھے اور وہ مسلمانوں کے بزرگ ہیں۔ پس تم بچو ( کہیں ایسا نہ ہو) کہ وہ تم کو اپنے خلاف میری مدد کرتے ہوئے دیکھ کر غصہ ہو جائیں، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں اور آپ اس کے غصے کی وجہ سے ناراض ہو جائیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہو جائیں اور ربیعہ ہلاک ہو جائے۔ انہوں نے کہا: تو (پھر ایسے میں) تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اس نے کہا: تم چلے جاؤ۔ (اب ہوا یوں کہ) ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور میں بھی اکیلا ان کے پیچھے چل پڑا۔ پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور جیسی بات تھی ویسے ہی بیان کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر میری طرف اٹھایا اور فرمایا: ”اے ربیعہ تیرے اور صدیق کے مابین کیا معاملہ ہے؟“، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول معاملہ تو ایسے ایسے تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا، پھر انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں بھی ان کو وہی بات کہ دوں تاکہ لے پلے ہو جائے۔
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اچانک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، انہوں نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا ہوا تھا، حتیٰ کہ اسے اپنے گھٹنے سے ہٹا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے ساتھی نے خود کو مصائب و مشکلات میں ڈال دیا ہے۔“ انہوں نے سلام کہا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری ابن خطاب سے کچھ گڑبڑ ہو گئی، میں نے جلدی میں کچھ کہہ دیا، پھر مجھے ندامت ہوئی، سو میں نے ان سے کہا کہ وہ مجھے معاف کر دیں، لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، اس لیے اب میں آپ کی طرف آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا: ”ابوبکر! اللہ تجھے معاف کرے۔“ ادھر بعد میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ندامت ہوئی، وہ سیدنا ابوبکر کے گھر گئے اور پوچھا: کیا ابوبکر ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدلتا گیا، حتیٰ کے ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈرنے لگ گئے وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہا: اے الله کے رسول! اللہ کی قسم! میں زیادہ ظلم کرنے والا تھا۔ ( دو دفعہ کہا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! بیشک اللہ نے مجھے تمہاری طرف بھیجا، لیکن تم نے مجھے (جھٹلاتے ہوئے) کہا: آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ سچے ہیں۔ ابوبکر نے اپنے جان و مال کو میری حمایت میں کھپا دیا، کیا تم میرے دوست کو میرے لیے چھوڑ دو گے؟“ (دو دفعہ فرمایا) اس کے بعد انہیں تکلیف نہیں پہنچائی گئی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم آگ سے آزاد شدہ آدمی ہو۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی نہیں جو مجھ پر ابوبکر کی بہ نسبت زیادہ احسان کرنے والا ہو، انہوں نے جان و مال کو میری حمایت میں صرف کر دیا اور اپنی بیٹی ( عائشہ) کی مجھ سے شادی بھی کی۔“
سیدنا عبداللہ بن حنطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر فرمایا: ”یہ (میری امت کے) کان اور آنکھیں ہیں۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر اور عمر پہلے اور پچھلے لوگوں میں سے جنت میں داخل ہونے والے ادھیڑ عمر والے لوگوں کے سردار ہیں۔“ یہ حدیث صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے، مثلاََ: سیدنا علی بن ابوطالب، سیدنا انس بن مالک سیدنا ابوجحیفہ، سیدنا جابر بن عبداللہ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم۔
جب سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خضاب کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند بال ہی سفید ہوئے تھے، البتہ آپ کے بعد سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے مہندی اور کتم (کے پودے) کو خضاب کے لیے استعمال کیا۔ (یہ بات بھی یاد رہے کہ) جب ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے باپ سیدنا ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اگر تم اپنے بزرگوں کو اپنے مقام پر ہی رہنے دیتے تو ہم ابوبکر کی عزت کرتے ہوئے ان کے پاس جاتے۔“ پھر انہوں نے اسلام قبول کر لیا، ان کی داڑھی اور سر کے بال ثغامہ بوٹی کی طرح سفید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دونوں (یعنی داڑھی اور سر) کے بالوں کا رنگ بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” خبردار! میں ہر گہرے دوست کی دوستی سے بری ہو رہا ہوں، اگر میں نے کسی ( بشر) کو خلیل بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا، تمہارا ساتھی ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے“۔ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عبداللہ بن زبیر، سیدنا ابو معلیٰ انصاری، سیدنا جندب بجلی، سیدنا ابوہریرہ، عائشہ، انس، جابر، ابوواقد اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا، عمار کی سیرت اختیار کرنا اور ابن مسعود کے عہد کو تھام لینا۔“ یہ حدیث سیدنا عبدالله بن مسعود، سیدنا حذیفہ بن یمان، سیدنا انس بن مالک اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرا! تھم جا! نہیں ہے تجھ پر مگر نبی یا صدیق یا شہید۔“ یہ حدیث سیدنا سعید بن زید، سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا انس بن مالک، سیدنا بریدہ بن حصیب اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی گئی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آج کون روزے دار ہے؟“ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آج تم میں سے کس نے مریض کی بیمار پرسی کی ہے؟“ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آج تم میں سے کس نے نماز جنازہ پڑھی ہے؟“ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ ”ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے، مروان کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں فرمایا: ”جس آدمی میں ایک دن میں یہ صفات جمع ہو جائیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
|