المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب “ हज़रत उमर बिन ख़त्ताब रज़ि अल्लाहु अन्ह की फ़ज़ीलत ”
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو غلبہ نصیب فرما۔“
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوا، اچانک وہاں میری نگاہ ابوطلحہ کی بیوی رمیصا پر پڑی اور مجھے اپنے سامنے والی جانب سے کسی کے حرکت کرنے کی آواز سنائی دی، میں نے کہا: جبریل! یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ بلال ہے۔ پھر میں نے ایک سفید محل دیکھا، اس کے صحن میں ایک لڑکی بھی موجود تھی۔ میں نے پوچھا: یہ کس کا محل ہے؟ اس نے جواب دیا: یہ عمر بن خطاب کا ہے۔ میں نے چاہا کہ اس میں داخل ہو جاؤں اور (اندر سے) دیکھ لوں، لیکن عمر! مجھے تیری غیرت یاد آ گئی۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا میں آپ پر غیرت کر سکتا ہوں؟۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں داخل ہوا، اچانک سونے کا ایک محل دیکھا۔ میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا ایک قریشی جوان کا ہے۔ مجھے خیال تھا کہ یہ میرا ہی ہو گا (کیونکہ میں قریشی ہوں)۔ بہرحال میں نے پوچھا: وہ قریشی کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! اگر تیری غیرت و حمیت کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں اس میں ضرور داخل ہو جاتا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! کیا میں آپ پر غیرت کھا سکتا ہوں؟“۔
ابوامامہ بن سہل بن حنیف ایک صحابی رسول سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سو رہا تھا، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ مجھ پر اس حال میں پیش کئے جانے لگے کہ انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی تھیں، کسی کی قمیص سینے تک تھی، کسی کی اس سے نیچے تک، اتنے میں عمر کو پیش کیا گیا، ان کی قمیص تو (اتنی لمبی تھی کہ) گھسٹ رہی تھی۔“ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قمیصوں سے مراد) دین ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر اور عمر پہلے اور پچھلے لوگوں میں سے جنت میں داخل ہونے والے عمر رسیدہ لوگوں کے سردار ہیں۔“ یہ حدیث سیدنا علی بن ابوطالب، سیدنا انس بن مالک، سیدنا ابوجحیفہ، سیدنا جابر بن عبداللہ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن حنطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر فرمایا: ”یہ (میری امت کے) کان اور آنکھیں ہیں۔“
عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوے سے واپس آئے تو سیاہ رنگ کی ایک لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فاتح لوٹایا تو میں آپ کے پاس دف بجاؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر نذر مانی ہے تو ٹھیک ہے (دف بجا لے) وگرنہ نہیں۔“ اس نے دف بجانا شروع کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، وہ بجاتی رہی، دوسرے صحابہ آئے، وہ اسی حالت پر رہی۔ لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے دف چھپانے کے لیے اسے اپنے نیچے رکھ دیا اور دوپٹا اوڑھ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! شیطان تجھ سے ڈرتا ہے۔ میں اور یہ لوگ یہاں بیٹھے تھے (یہ دف بجاتی رہی) لیکن جب تم داخل ہوئے تو اس نے ایسے ایسے کر دیا۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں (خواب میں) ایک کنویں سے پانی کھینچ رہا تھا، میرے پاس ابوبکر آئے، انہوں نے ڈول پکڑا اور ایک دو ڈول کھینچے، اس کے کھینچنے میں کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔ پھر ابوبکر کے ہاتھ سے عمر ابن خطاب نے (وہ ڈول) پکڑ لیا، پھرتو وہ بہت بڑا ڈول ثابت ہوا، میں نے ایسا قوی (اور باکمال) آدمی نہیں دیکھا جو اس طرح کام کرتا ہو، انہوں نے اتنا پانی کھینچا کہ لوگ اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے پانی کے پاس ٹھہر گئے۔“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور کہا: امی جان! میں قریش کا امیر ترین آدمی ہوں، مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں یہ کثرت مال مجھے ہلاک نہ کر دے۔ انہوں نے کہا: میرے بیٹے! خرچ کیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میرے بعض صحابہ ایسے بھی ہیں جو میری مفارقت کے بعد مجھے نہیں ملیں گے۔“ وہ وہاں سے نکل پڑے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ملے، (اور انہیں یہ حدیث سنائی)۔ سیدنا عمر، سیدہ ام سلمہ کے پاس آئے اور کہا: اﷲ کی قسم! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ لیکن آپ کے بعد کسی کو خبر نہیں دوں گی۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) مرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی نماز جنازہ کے لیے بلایا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لےگئے اور جب نماز کے ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں گھوم کر آپ صلی الله علیہ و سلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا: اے الله کے رسول! کیا الله تعالیٰ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ (پڑھنے لگے ہیں)، جس نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے کہا تھا؟ ان دنوں کو شمار بھی کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواباً مسکرا دیے۔ جب میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے اختیار دیا گیا اور میں نے ( اس اختیار کو) قبول کر لیا، مجھے ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) کہا گیا ہے: ”اے محمد! آپ ان کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں، اگر آپ ستر دفعہ بھی بخشش طلب کریں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“ (سورۃ التوبہ: ۸۰) اگر مجھے علم ہوتا کہ ستر سے زائد دفعہ بخشش طلب کرنے سے اسے بخش دیا جائے گا تو میں زیادہ دفعہ کر دیتا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، اس کی میت کے ساتھ چلے اور فارغ ہونے تک اس کی قبر پر کھڑے رہے۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جرات کرنے پر بڑا تعجب ہو رہا تھا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ اللہ کی قسم! تھوڑے وقت کے بعد ہی یہ دو آیات نازل ہوئیں: ”اے محمد! منافقوں میں سے جو بھی مرے، آپ نہ کبھی اس کی نماز جنازہ پڑھائیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور فسق کی حالت میں مرے ہیں۔“ (سوره توبہ: ٨٤) (ان آیات کے نزول کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا، عمار کی سیرت اختیار کرنا اور ابن مسعود کے عہد کو تھام لینا۔“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا حذیفہ بن یمان، سیدنا انس بن مالک اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کی گئی ہے۔
محمد بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، اس وقت آپ کے پاس قریشی عورتیں بیٹھی تھیں، وہ آپ سے سوال کر رہی تھیں، کثرت کا مطالبہ کر رہی تھیں اور بلند آواز میں ( اپنے مطالبات کا) اظہار کر رہی تھیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت لی تو انھوں نے جلدی جلدی پردہ کر لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی، جب وہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اور اللہ تعالیٰ آپ کو ہنساتا رہے (بھلا مسکرانے کی وجہ کیا ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ان عورتوں پر بڑا تعجب ہو رہا ہے، یہ میرے پاس بیٹھی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی جلدی پردہ کر لیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے۔ پھر وہ ان عورتوں پر متوجہ ہوئے اور کہا: اپنے نفسوں کے دشمنو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی؟ انہوں نے کہا: تم رسول اللہ کی بہ نسبت زیادہ سخت رو ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن خطاب! بس کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب شیطان تجھے کسی گلی میں چلتے دیکھتا ہے تو وہ (تجھ سے خوفزدہ ہو کر) دوسری گلی میں چلا جاتا ہے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین اسلام میں ابوبکر اور عمر کی اہمیت سر میں کان اور آنکھ کی سی ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرا! تھم جا، نہیں ہے تجھ پر مگر نبی یا صدیق یا شہید۔“ یہ حدیث سیدنا سعید بن زید، سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا انس بن مالک، سیدنا بریدہ بن حصیب اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی گئی ہے۔
|