المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب “ हज़रत अली रज़ि अल्लाहु अन्ह की फ़ज़ीलत ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا میں دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔ اے اللہ! تو علی کو دوست بنانے والے کا دوست بن جا اور اس سے دشمنی رکھنے والے کا وشمن بن جا۔“ یہ حدیث سیدنا زید بن ارقم، سیدنا سعد بن ابو وقاص، سیدنا بریدہ بن حصیب، سیدنا علی بن ابوطالب، سیدنا ابوایوب انصاری، سیدنا برا بن عازب، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا انس بن مالک، سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، خطبہ دیا اور یہ بھی کہا: ”لوگو! علی کی شکایت مت لگایا کرو۔ اللہ کی قسم! وہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس بات سے اعلیٰ ہے کہ اس کی شکایت کی جائے۔“
بلال بن یحییٰ کہتے ہیں: جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو سیدنا حذیفہ کو خواب آیا، انہیں کہا گیا: اے ابوعبداللہ! عثمان کو تو شہید کر دیا گیا ہے اور لوگ اختلاف میں پڑ چکے ہیں، ایسے میں آپ کیا کہیں گے؟ انہوں نے کہا: مجھے سہارا دو۔ انہوں نے ان کو ایک آدمی کے سینے کا سہارا دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”ابوالیقظان فطرت (اسلام) پر ہے اور اس کو مرنے تک یا انتہائی بوڑھا ہونے تک نہیں چھوڑے گا۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علی کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی۔“ یہ حدیث سیدنا عمرو بن شاس، سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی۔ اور جس نے علی سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔“
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر ایک لشکر بھیجا، اوہ اپنی جماعت کے ہمراہ چلے گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی لے لی، دوسرے لوگوں نے اس چیز کو اچھا نہ سمجھا اور چار اصحاب رسول نے آپس میں معاہدہ کیا کہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے کئے پر آپ کو آگاہ کریں گے گے۔ (اس وقت یہ معمول تھا کہ) مسلمان جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے، آپ پر سلام کرتے، پھر اپنے گھروں کی طرف جاتے۔ جب یہ لشکر واپس آیا تو اس میں شریک افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ عہد و پیمان کے مطابق مذکورہ بالا چار افراد میں سے ایک کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ علی کو نہیں دیکھتے؟ انہوں نے ایسے ایسے کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا۔ پھر دوسرا کھڑا ہوا، اس نے بھی یہی بات کہی۔ آپ نے اس سے بھی اعراض کیا۔ پھر تیسرا کھڑا ہوا اور یہی بات کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منہ پھیر لیا۔ پھر چوتھا کھڑا ہوا اور وہی بات کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے، آپ کے چہرے سے غیظ و غضب کا پتہ چل رہا تھا، اور فرمایا: ”تم علی کی شکایت کر کے کیا چاہتے ہو؟ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مومن کا دوست ہو گا۔“
ابوعبداللہ جدلی کہتے ہیں کہ مجھے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم لوگوں کی موجودگی میں منبروں پر برا بھلا کہا جا رہا ہے؟ میں نے کہا: سبحان اللہ! آپ کو کہاں برا بھلا کہا جا رہا ہے؟ انہوں نے کہا: کیا سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ اور ان سے محبت کرنے والوں پر سب و شتم نہیں کیا جا رہا؟ اور میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے تھے۔
محمد بن اسامہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا جعفر، سیدنا علی اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم جمع ہوئے، سیدنا جعفر نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ محبوب ہوں۔ سیدنا زید نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم دونوں سے بڑھ کر محبوب ہوں۔ انہوں نے کہا: چلو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر دریافت کرتے ہیں۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وہ سب آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”جاؤ دیکھو کون ہے؟“ میں نے کہا: جعفر، علی اور زید لوگ ہیں، میرے ابا جان! میں انہیں کیا کہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو اندار آنے کی اجازت دے دو۔“ وہ سب اندر آ گئے اور کہا: آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فاطمہ۔“ انہوں نے کہا: ہم مردوں کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جعفر! تمہارا اخلاق میرے اخلاق کے اور تمہاری جسمانی ساخت میری جسمانی ساخت کے مشابہ ہے اور تو مجھ سے اور میرے نسب میں سے ہے۔ علی! تم میرے داماد ہو، میرے بچوں ( حسن و حسین) کے باپ ہو اور تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہو اور زید! تم میرے دوست ہو، تم مجھ سے ہو، میں تمہاراذمہ دار ہوں اور تم مجھے لوگوں میں محبوب ترین ہو۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اے علی!) تجھ سے محبت کرنے والا مومن اور تجھ سے بغض رکھنے والا منافق ہو گا۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی میرا قرضہ ادا کرے گا۔“ یہ حدیث سیدنا انس بن مالک، سیدنا حبشی بن جنادہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم بیٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، آپ اپنی ایک بیوی کے گھر سے نکلے اور ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم کھڑے ہوئے (اور) آپ کے ساتھ چل دیے، آپ کا جوتا ٹوٹ گیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کو سلائی کرنے کی خاطر پیچھے رہ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے اور ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے رہے۔ ایک مقام پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے انتظار میں ٹھہر گئے، ہم بھی آپ کے ساتھ رک گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بعض لوگ میری طرح اس قرآن کی تفسیر کے مطابق جہاد کرتے ہیں۔“ ہم جھانکنے لگ گئے اور ہم میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، میری مراد جوتے کی سلائی کرنے والا (علی) ہے۔“ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دینے کے لیے آئے، لیکن ایسے لگ رہا تھا کہ انہوں نے یہ بشارت خود سن لی تھی۔
|