المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ قریش کی فضیلت “ क़ुरैशियों की फ़ज़ीलत ”
سیدنا حمید بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ کے کسی گوشے میں ( ایک آبادی میں) تھے جب آئے تو آپ کے چہرے سے کپڑا اٹھایا، آپ کا بوسہ لیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کتنی پاکیزہ شخصیت ہیں، زندہ ہوں یا فوت شدہ۔ رب کعبہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں . . .۔ پھر سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما انصاریوں کے پاس گئے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے بات کی اور ان کے بارے میں نازل ہونے والی تمام آیات اور احادیث رسول ذکر کر دیں، نیز کہا: (انصاریو!) تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں چلیں تو میں انصار کی وادی میں ان کے ساتھ چلوں گا۔“ سعد! تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم وہاں بیٹھے تھے: ”قریش اس (خلافت کے) معاملے کے ذمہ دار و حقدار ہیں، نیکوکار لوگ نیک قریشیوں کے تابع فرمان ہوں گے اور برے لوگ برے قریشیوں کے ماتحت ہوں گے۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سچ کہہ رہے ہو، ہم وزرا ہیں اور تم امرا ہو۔ یہ حدیث سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
زید بن عبدالرحمٰن بن سعید بن عمرو بن نفیل، جن کا بنو عدی قبیلہ سے تعلق ہے، اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں کچھ قریشی جوانوں سمیت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اس وقت وہ نابینا ہو چکے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ چھت کے ساتھ ایک رسی لٹک رہی تھی اور اس کے سامنے روٹیاں یا ان کے ٹکڑے پڑے تھے۔ جب کوئی مسکین کھانا مانگتا ہے تو سیدنا جابر ایک ٹکڑا اٹھاتے، رسی کو پکڑ کر اس کی رہنمائی میں مسکین تک پہنچتے، اسے وہ ٹکڑا تھماتے اور رسی کی رہنمائی میں ہی واپس آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ میں نے کہا: اللہ آپ کو صحت و عافیت سے نوازے، ہم یہ ٹکڑا (آسانی سے) مسکین کو پکڑا سکتے تھے (آپ نے ہمیں کہہ دینا تھا، خود کیوں تکلیف کی ہے)۔ انہوں نے کہا: دراصل میں اجر و ثواب کی نیت سے چل کر گیا ہوں، پھر کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان نہ کروں، جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے خود سنی؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں، (ضرور بیان کیجئیے)۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بیشک قریشی امانت والے ہیں، جو آدمی ان کے عیوب کی ٹوہ میں پڑ جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے نتھنوں کے بل (اوندھے منہ) گرا دے گا۔“
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجرین دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے دوست ہوں گے اور قریش اور ثقیف کے آزاد کئے ہوئے لوگ بھی دنیا و آخرت میں ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔“
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے قریش کو سات خصائل کی بنا پر فضیلت دی ہے: (۱) انہیں اس بنا پر فضیلت دی کہ انہوں نے دس سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، صرف قریشی اس کی عبادت کرتے تھے، (۲) انہیں اس وجہ سے فضیلت دی کہ اس نے ہاتھیوں والے لشکر کے دن ان کی مدد کی، حالانکہ وہ مشرک تھے، (۳) انہیں اس بنا پر فضیلت دی کہ ان کے بارے میں قرآن مجید کی ایک مکمل سورت «لايلاف قريش» نازل کی، اس میں کسی دوسرے کا ذکر نہیں کیا، انہیں اس وجہ سے فضیلت دی کی ان میں (۴) نبوت (۵) خلافت ( ۶) محافظت و نگرانی اور (۷) حاجیوں کو پلانا ہے۔ “
عبداللہ بن ابو ہذیل نے کہا: ربیعہ قبیلہ کے کچھ لوگ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے۔ بکر بن وائل قبیلہ کے ایک شخص نے کہا: قریش قبیلہ کے افراد (ان کاروائیوں سے) باز آ جا ئیں یا اللہ تعالیٰ اس (خلافت والے) معاملے کو عرب کی اکثریت یا کسی اور کے حوالے کر دے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو جھوٹ بول رہا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قریش خیر و شر میں روز قیامت تک لوگوں کے حکمران رہیں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ اس (خلافت کے) معاملے میں قریشیوں کے تابع ہیں، مسلمان لوگ قریشی مسلمانوں کے تابع ہوں گے اور کافر لوگ قریشی کافروں کے تابع ہوں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو قریش کو رسوا کرے گا، اللہ اس کو ذلیل کر دے گا۔“ یہ حدیث سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا سعد بن ابو وقاص، سیدنا انس بن مالک اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ خیر و شر میں قریشیوں کے ماتحت ہوں گے، (یعنی اگر قریشی نیک ہوئے تو لوگ بھی نیک ہوں گے اور اگر قریشی برے ہوئے تو لوگ بھی برے ہوں گے)۔“
|