المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے فضائل و مناقب، آپ صلى اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دیں گے “ रसूल अल्लाह ﷺ की फ़ज़ीलतें और तारीफ़ और आप ﷺ जन्नत के दरवाज़े पर सबसे पहले दस्तक देंगे ”
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں وہ پہلا شخص ہوں جو جنت کے دروازے کا کنڈا پکڑ کر کھٹکھٹاوں گا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں روز قیامت جنت کے دروازے پر آ کر اسے کھولنے کا مطالبہ کروں گا۔ دربان پوچھے گا: آپ کون ہیں؟ میں جواب دوں گا: میں محمد ہوں۔ (یہ سن کر) وہ کہے گا: آپ کے بارے میں مجھے حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے (جنت کا) دروازہ نہیں کھولنا۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور اپنے صحابہ سے فرمایا: ”تم لوگ میرے سامنے چلو اور میری پشت (والی سمت) فرشتوں کے لیے خالی کر دو۔“
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری ماں نے دیکھا کہ ایک نور ان سے خارج ہوا، جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے ایک سوال کیا، لیکن بعد میں چاہا کہ نہ کیا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ میں نے کہا: اے میرے رب! مجھ سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں، تو نے کسی کے لیے ہواؤں کو مسخر کیا، کوئی ( تیری توفیق سے) مردوں کو زندہ کرتا تھا اور موسیٰ علیہ السلام سے تو نے ( براہ راست) کلام کی۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: کیا میں نے تجھے یتیم پا کر مقام نہیں دیا، کیا تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی، کیا تجھے نادار پا کر تونگر نہیں بنا دیا، کیا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا اور تجھ پر سے تیرا بوجھ نہیں اتار دیا؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، (اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے چپ کرا دیا)۔ میں نے چاہا کہ میں نے سوال نہ کیا ہوتا۔“
خالد بن معدان، اصحاب رسول سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنے بارے میں بتلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں، جب میری ماں کو میرا حمل ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نور ان سے نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے، مجھے بنو سعد بن بکر قبیلے میں دودھ پلایا گیا۔ میں وہاں بکریاں چرا رہا تھا، میرے پاس دو آدمی آئے، انہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے، ان کے پاس برف سے بھری ہوئی سونے کی پلیٹ تھی، انھوں نے مجھے لٹا دیا، میرے پیٹ کو چاک کیا، پھر دل کو نکالا، اس کو پھاڑا اور اس سے سیاہ رنگ کا بستہ خون کا ٹکڑا نکال کر پھینک دیا، پھر میرے دل اور پیٹ کو برف سے دھویا، جب انھیں صاف کر لیا تو اپنی اپنی جگہ پر لوٹا دیا۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ان کی امت کے دس افراد سے ان کا وزن کرو۔ چنانچہ انہوں نے دس افراد سے میرا وزن کیا، میں بھاری رہا۔ پھر اس نے کہا: ان کی امت کے سو افراد سے ان کا وزن کرو۔ سو اس نے سو (۱۰۰) افراد سے میرا وزن کیا، میں وزنی رہا۔ پھر اس نے کہا: ہزار آدمیوں سے ان کا وزن کرو، چنانچہ اس نے ہزار افراد سے میرا وزن کیا نتیجتاً میں بھاری رہا (بلآخر) اس نے کہا: چھوڑیئے، اگر تم ان کی پوری امت سے ان کا وزن کرو تو پھر بھی یہ وزن میں غالب رہیں گے۔“
سیدناابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ایک ہزار افراد سے میرا وزن کیا گیا، میں وزنی رہا (اور ان کا پلڑا اتنا اوپر کو اٹھ گیا کہ) وہ اس سے مجھ پر گرنا شروع ہو گئے۔“
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنے بارے میں آگاہ کیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور سب سے آخر میں میری بشارت دینے والے سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تھے۔“
|