المناقب والمثالب فضائل و مناقب اور معائب و نقائص फ़ज़िलतें, विशेषताएं, कमियां और बुराइयाँ انصار کے فضائل و مناقب “ अन्सारियों की फ़ज़ीलत ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا۔“ یہ حدیث سیدنا ابوسعید سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
محمد بن جبیر بن مطعم اپنے باپ سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شاہراہ مکہ پر بیٹھ ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یمن کے لوگ تمہارے پاس آئیں گے، گویا کہ وہ بادل ہیں، وہ ( اہل) زمین میں سے بہترین لوگ ہیں۔“ ایک انصاری آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا وہ ہم سے بھی ( بہتر) ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم (سب سے بہتر) نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی۔ اس نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم (سب سے بہتر) نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ پست آواز میں فرمایا: ”سوائے تمہارے۔“
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے انصاریوں سے محبت کی، اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس نے انصاریوں سے بغض رکھا، اللہ اس سے بغض رکھے گا۔“
سیدنا حمید بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ کے کسی گوشے میں (ایک آبادی میں) تھے۔ جب وہ آئے تو آپ کے چہرے سے کپڑا اٹھایا، آپ کا بوسہ لیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کتنی پاکیزہ شخصیت ہیں، زندہ ہوں یا فوت شدہ۔ رب کعبہ کی قسم! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہو گئے ہیں . . . .، پھر سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما انصاریوں کے پاس گئے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے بات کی اور ان کے بارے میں نازل ہونے والی تمام آیات اور احادیث رسول ذکر کر دیں، نیز کہا: (انصاریو!) تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں چلیں تو میں انصار کی وادی میں ان کے ساتھ چلوں گا۔“ سعد! تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم وہاں بیٹھے تھے: ”قریش اس (خلافت کے) معاملے کے ذمہ دار و حقدار ہیں، نیکوکار لوگ نیک قریشیوں کے تابع فرمان ہوں گے اور برے لوگ برے قریشیوں کے ماتحت ہوں گے۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سچ کہہ رہے ہو، ہم وزرا ہیں اور تم امرا ہو۔ یہ حدیث سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
سیدنا حارث بن زیاد ساعدی انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں خندق والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا، آپ لوگوں سے ہجرت پر بیعت لے رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان کی بھی بیعت لے لو۔ آپ نے پوچھا: ”یہ کون ہیں؟“ میں نے کہا: یہ میرے چچا کے بیٹے حوط بن یزید یا یزید بن حوط ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں آپ سے بیعت نہیں لوں گا، کیونکہ لوگ آپ کی طرف ہجرت کرتے ہیں، نہ کہ تم ان کی طرف کرتے ہو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو آدمی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے تک انصار سے محبت کرتا رہا تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس سے محبت کرنے والا ہو گا اور جو آدمی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے تک انصار سے بغض کرتا رہا تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس سے بغض رکھنے والا ہو گا۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے خزیزہ (ایک کھانا جو قیمے اور آٹے سے بنایا جاتا ہے) تیار کرنے کا حکم دیا، جب میں وہ کھانا تیار کر کے فارغ ہوا تو مجھے حکم دیا کہ یہ کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ۔ میں آپ کے پاس گیا، آپ گھر میں ہی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”جابر! تمہارے کے پاس کون سی چیز ہے؟ آیا گوشت ہے؟“ میں نے کہا: نہیں۔ میں اپنے باپ کے پاس واپس آ گیا، انہوں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیری ملاقات ہوئی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: تو نے ان کی کوئی بات سنی؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! تیرے پاس کیا ہے؟ آیا گوشت ہے؟“ میرے باپ نے کہا: ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گوشت کھانے کے خواہشمند ہوں۔ چنانچہ انہوں نے پالتو بکری ذبح کرنے کا حکم دیا۔ پس اسے ذبح کیا گیا، پھر اسے بھونا گیا۔ پھر میرے باپ نے مجھے حکم دیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ، میں لے گیا، جب آپ نے مجھے دیکھا تو پوچھا۔ ”جابر! تیرے پاس کیا ہے؟“، میں نے بتایا (کہ گوشت ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے انصاریوں کو جزائے خیر دے، بالخصوص عبداللہ بن عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہ کو۔“
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار تحتانی لباس (یعنی مخصوص) لوگ ہیں اور دوسرے لوگ فوقانی لباس (یعنی عام لوگ) ہیں۔ اگر عام لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک وادی میں تو میں انصاریوں کی وادی میں چلوں گا، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصاری ہوتا۔“
عبدالرحمٰن بن جابر بن عبداللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حرہ والے دن نکلے، جب ان کا پاؤں ایک پتھر سے ٹکرایا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈرانے والا ہلاک ہو جائے۔ میں نے کہا: کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوفزدہ کیا؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے انصار کے اس قبیلے کو ڈرایا، اس نے میرے دل کو خوفزدہ کر دیا۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار میرے مخلص ساتھی اور ہمراز ہیں، دوسرے لوگ گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ انصاریوں کی اچھائیاں قبول کرو اور ان کی برائیاں نظر انداز کر دو۔“ یہ حدیث سیدنا انس، سیدنا اسید بن حضیر، سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصاریوں سے محبت کرنے والا مومن اور ان سے بغض رکھنے والا منافق ہی ہو سکتا ہے۔ اللہ اس سے محبت کرے جو ان سے محبت کرتا ہے اور اس سے بغض رکھے جو ان سے بغض رکھتا ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن سر باندھ کر باہر تشریف لائے، انصاریوں کے بچے اور خدّام آپ کو ملے، جو اس وقت انصاریوں کا ذخیرہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین دفعہ فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بیشک میں تم سے محبت کرتا ہوں۔“ پھر فرمایا: ”انصاریوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کر دیں، تمہاری ذمہ داریاں باقی ہیں، سو تم انصاریوں کی حسنات قبول کر لینا اور ان کی سیئات سے تجاوز کر جانا۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یہ انصاری خواتین و حضرات مسجد میں جمع ہیں اور رو رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا: ”یہ لوگ کیوں رو رہے ہیں؟“ اس نے کہا: انہیں آپ کی موت کا خطرہ ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل پڑے، ایک چادر آپ نے کندھوں پر ڈالی ہوئی تھی اور مٹیالے رنگ کی پگڑی باندھی ہوئی تھی، آپ ممبر پر تشریف فرما ہوئے، یہ آپ کی آخری مجلس تھی۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: اما بعد: لوگو! لوگوں کی تعداد میں اضافہ اور انصار کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے، حتیٰ کہ ان کی تعداد کھانے میں نمک کے برابر رہ جائے گی۔ (سنو!) تم میں سے جو آدمی، محمد کی امت کے امور کا والی بنے اور اسے یہ طاقت بھی ہو کہ وہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکے تو وہ انصاریوں کی نیکیوں کو قبول کرے اور برائیوں سے درگزر کرے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”آگاہ ہو جاؤ! ہر آدمی کی میراث اور جاگیر ہوتی ہے اور میری میراث اور جاگیر انصاری ہیں، ان کے بارے میں میرا خیال رکھنا۔“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر انصاریوں کے حق میں یہ فرماتے ہوئے سنا: ”عام لوگ فوقانی لباس ہیں اور انصاری تحتانی لباس (یعنی مخصوص) لوگ) ہیں، اگر لوگ ایک وادی میں اور انصار کسی دوسری گھاٹی میں چل رہے ہوں تو میں انصاریوں کی گھاٹی میں چلوں گا، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصاریوں میں سے ہوتا، جو آدمی انصار کے معاملات کا والی بنے وہ ان کے نیک لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور غلطیاں کرنے والوں سے تجاوز کر جائے۔ جس نے ان کو خوفزدہ کیا اس نے ان دو پہلوؤں کے درمیان والی چیز کو خوفزدہ کر دیا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہارے لیے انصار کے بہترین گھروں یا بہترین انصاریوں کا تعین نہ کر دوں۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو نجار سب سے بہتر ہیں ان کے بعد بنو عبدالاشھل، ان کے بعد بنو حارث بن خزرج اور ان کے بعد بنو ساعدہ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں بند کیں اور کھولیں، جیسے کوئی چیز پھینک رہے ہیں اور فرمایا: ”سب انصاریوں کے گھروں میں خیر ہے۔“ یہ حدیث سیدنا انس، سیدنا ابو ایسد ساعدی، سیدنا ابو حمید ساعدی اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
علی بن زید کہتے ہیں کہ انصار کے سردار کی طرف سے مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کو کوئی (قابل اعتراض) بات پہنچی، انہوں نے اسے برا بھلا کہنے کا ارادہ کیا، اتنے میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ آ گئے اور اسے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”انصار صحابہ کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو، ان میں سے نیکی کرنے والوں سے حسن سلوک کرو اور غلطی کرنے والوں سے درگزر کرو۔“ ( یہ سن کر) سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو چارپائی سے نیچے گرا دیا اور اپنے رخسار کو زمین پر رکھ دیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سر آنکھوں پر۔ پھر انصاری کو چھوڑ دیا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار سے محبت ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے۔“
|