السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان سفر، جہاد، غزوہ اور جانور کے ساتھ نرمی برتنا यात्रा, जिहाद, जंग और जानवरों के साथ नरमी करना فضیلت جہاد “ जिहाद की फ़ज़ीलत ”
سہل بن معاذ بن انس اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میرا خاوند جہاد کے لیے روانہ ہو گیا ہے اور میں نماز میں اور اس کے تمام (اچھے) اعمال میں اس کی اقتدا کرتی تھی، اب آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیں جو مجھے اس کے عمل (کے درجے) تک پہنچا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”کیا تو طاقت رکھتی ہے کہ (مسلسل) قیام کرتی رہے اور آرام نہ کرے اور (مسلسل) روزے رکھتی رہے اور (کسی دن) افطار نہ کرے اور (مسلسل) اللہ کا ذکر کرتی رہے اور (کبھی) اس سے غفلت نہ برتے، یہاں کہ وہ لوٹ آئے؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس عمل کی طاقت نہیں رکھتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تجھے یہ اعمال کرنے کی طاقت مل بھی جائے تو تو اس کے عمل کے دسویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔
سیدنا فضالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت نازل فرمائے، (ذرا بتائیں کہ) جہاد کے قریب ترین عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب عمل اس کے راستے میں جہاد کرنا ہے اور اس جیسا کوئی عمل نہیں ہے، ہاں جو اس طرح کا آدمی ہو۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرنے والے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا جو نہ قیام کرنے سے سست پڑتا ہے اور نہ روزے رکھنے میں غفلت برتتا ہے۔
ابوطیبہ بیان کرتے ہیں کہ شرحبیل بن سمط نے سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا: ابن عبسہ! کیا تو ایسی حدیث بیان کر سکتا ہے، جو تو نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، نہ اس میں زیادتی ہو اور نہ کوئی جھوٹ۔ اور تو نے وہ کسی واسطے سے نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”(۱) جس آدمی نے اللہ کے راستے میں تیر پھینکا، وہ نشانے پر لگا یا نہ لگا، اسے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ (۲) جو آدمی اللہ کے راستے میں بوڑھا ہو گیا تو یہ عمل اس کے لیے نور ہو گا۔ (۳) جس مسلمان نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو آزاد شدہ کے ہر ایک عضو کے بدلے آزاد کنندہ کا ہر عضو آگ سے آزاد ہو جائے گا۔ (۴) جس مسلمان عورت نے کسی مسلمان عورت کو آزاد کیا تو آزاد شدہ عورت کے ہر عضو کے بدلے آزاد کنندہ کا ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جائے گا۔ (۵) جس مسلمان مرد یا عورت نے اپنی اولاد میں سے تین نابالغ بچے آگے بھیج دیے (یعنی فوت ہو گئے) تو وہ اس کے لیے آگ کے سامنے آڑ بن جائیں گے (یعنی وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا)۔ (۶) جو آدمی نماز کے ارادے سے وضو کرنے کے لیے اٹھا اور وضو میں پانی کو اس کی جگہ تک پہنچایا تو وہ ہر گناہ یا خطا سے پاک ہو جائے گا۔ اب اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرے گا اور اگر ویسے ہی بیٹھ جاتا ہے تو (گناہوں سے) پاک ہو کر بیٹھے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سرحدی پہرہ دے رہا تھا، (اچانک) لوگ گھبرا گئے اور ساحل کی طرف نکل پڑے۔ پھر کہا گیا کہ کوئی بات نہیں ہے۔ پس لوگ پلٹ آئے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھڑے رہے، ایک آدمی ان کے پاس سے گزرا اور کہا: ابوہریرہ! آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”اللہ کے راستے میں کچھ وقت ٹھہرنا حجراسود کے پاس شب قدر کا قیام کرنے سے بہتر ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کی ضمانت اٹھائی ہے جو اس کے راستے میں نکلتا ہے اور (اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ) جب یہ آدمی صرف میرے راستے میں جہاد کرنے، مجھ پر ایمان لانے اور میرے رسول کی تصدیق کرنے کی وجہ سے نکلتا ہے تو میں بھی ضمانت دیتا ہوں کہ اسے جنت میں داخل کروں گا یا اس کو اجر یا غنیمت، جو بھی اس نے حاصل کیا، سمیت اس کے گھر لوٹا دوں گا۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اس ذات کے قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو زخم بھی اللہ کے راستے میں لگتا ہے تو زخمی جس حالت میں زخمی ہوا تھا، اس حالت میں روز قیامت آئے گا، زخم سے بہنے والے خون کا رنگ تو وہی ہو گا جو خون کا ہوتا ہے، لیکن اس کی خوشبو کستوری کی طرح کی ہو گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر مسلمانوں پر گراں نہ گزرتا تو میں کبھی بھی اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے لشکر سے پیچھے نہ رہتا، لیکن میرے پاس (اسباب کی) وسعت نہیں کہ وہ سب میرے ساتھ آ سکیں اور مجھ سے پیچھے رہنا وہ پسند نہیں کرتے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! میں تو چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں، پھر (زندہ ہو کر) جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں، پھر (زندہ ہو کر) جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں۔“
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تین قسم کے آدمیوں سے محبت کرتا ہے، ان پر ہنستا ہے اور ان سے خوش ہوتا ہے: (۱) وہ آدمی کہ (اس کی جماعت) فرار ہو گئی، لیکن وہ ان کے بعد اللہ کے لیے لڑتا رہا، قتل ہو گیا یا اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کی اور اسے کافی ہو گیا، اللہ تعالیٰ (ایسے آدمی کے بارے میں) کہتا ہے؟ میرے بندے کی طرف دیکھو، وہ اپنے آپ سے کیسے صبر کروا رہا ہے؟ (۲) وہ آدمی کہ جس کی بیوی خوبصورت اور اس کے پاس بہترین نرم بستر ہے، لیکن وہ قیام کرنے کے لیے رات کو کھڑا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے: (میرے بندہ) اپنی شہوت ترک کر کے میرا ذکر کر رہا ہے اور مجھ سے سرگوشی کر رہا ہے، اگر یہ چاہتا تو سو بھی سکتا تھا۔ (۳) اور وہ آدمی جو قافلے سمیت سفر پر ہو، وہ رات کو کچھ حصہ جاگنے (اور چلنے کی وجہ سے) چکنا چور ہو گئے ہوں اور (بالآخر) سو گئے ہوں، لیکن وہ خوشی و ناخوشی میں سحری کے وقت اٹھ کھڑا ہو (اور نماز پڑھنا شروع کر دے)۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرا مکاتب اپنی مکاتبت کا بقیہ حصہ لے کر میرے پاس آیا۔ میں نے اسے کہا: اس دفعہ کے بعد تو مجھ پر داخل نہیں ہو سکتا (کیونکہ تو اب آزاد ہو چکا ہے)۔ تو اللہ کے راستے میں جہاد کر، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ” جس مسلمان کے دل پر اللہ کے راستے میں غبار لگ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر آگ کو حرام قرار دیتے ہیں۔“
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا کچھ دیر کے لیے اللہ کے راستے میں ٹھہرنا ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر پھینکا تو یہ روز قیامت اس کے لیے نور ہو گا۔“
عبایہ بن رفاعہ کہتے ہیں: میں جمعہ کی نماز کے لیے جا رہا تھا، مجھے سیدنا ابوعبس رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: خوش ہو جا، تیرے یہ قدم اللہ کے راستے میں ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جس آدمی کے قدم اللہ کے راستے میں خاک آلود ہوں گے، اللہ تعالیٰ اسے آگ پر حرام کر دے گا۔“
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے اللہ کے راستے میں کوئی زخم لگا تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس (زخم سے بہنے والے خون کی) بو کستوری کی طرح کی اور رنگ زعفران کی طرح کا ہو گا، اس پر شہدا کی مہر ہو گی۔ جس نے اللہ تعالیٰ سے خلوص دل سے شہادت کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کے اجر سے نواز دے گا، اگرچہ وہ بستر پر ہی مر جائے۔“
اصحاب رسول میں سے ایک آدمی ایک گھاٹی، جس میں میٹھے پانی کا چھوٹا سا چشمہ تھا، کے پاس سے گزرا، اس کی خوشبو اسے بڑی اچھی لگی۔ وہ (دل میں) کہنے لگا: اگر میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر اسی گھاٹی میں فروکس ہو جاؤں تو . . . . . لیکن میں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کروں گا۔ جب اس نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے نہیں کرنا، کیونکہ اللہ کے راستے میں تمہارا ٹھہرنا ساٹھ سالوں کی انفرادی نماز سے بہتر ہے۔ کیا تم لوگ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے اور تمھیں جنت میں داخل کر دے؟ اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جس نے اللہ کے راستے میں اونٹنی کے دو بار دوہنے کی درمیانی مدت کے برابر جہاد کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نکیل شدہ اونٹنی لے کر آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ اونٹنی اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے لیے اس کے بدلے جنت میں سات سو اونٹنیاں ہوں گی، سب کی سب مہار والی ہوں گی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس روزے دار اور قیام کرنے والے آدمی کی طرح ہے جو مجاہد کے گھر واپس آنے تک نہ نماز سے تھکتا ہے نہ روزے سے۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہا: مجھے کوئی وصیت کریں۔ میں نے کہا: تو نے جو سوال مجھ سے کیا ہے، میں نے تجھ سے پہلے یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا): ” میں تجھے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ یہ ہر چیز کی بنیاد ہے، جہاد کو لازم پکڑ کہ وہ اسلام کی رہبانیت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کیا کر کیونکہ وہ آسمان میں تیرے لیے باعث رحمت اور زمین میں تیرے لیے باعث تذکرہ ہیں۔“
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غزوے کی دو قسمیں ہیں: (۱) جس نے (جہاد کر کے) اللہ کی رضا مندی تلاش کی، حکمران کی اطاعت کی، عمدہ مال خرچ کیا اور فساد سے اجتناب کیا تو اس کا سونا اور جاگنا سب عبادت ہے اور (۲) جن نے فخر کرتے ہوئے، ریاکاری کرتے ہوئے اور شہرت کے حصول کے لیے (جہاد کیا)، حکمران کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد برپا کیا تو وہ برابر سرابر بھی نہیں لوٹے گا (بلکہ برائیوں کا بوجھ لے کر آئے گا)۔“
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو، کیونکہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ (باب الجہاد) ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے غم والم اور مصیبت و پریشانی کو دور کر دیتا ہے۔“
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جونہی شہید کے خون کا پہلا قطرہ گرتا ہے تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں، ماسوائے قرض کے۔“
حبیب بن شہاب عنبری کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنا، وہ کہتے ہیں: میں اور میرا دوست سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دروازے پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ملے۔ انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ ہم نے اپنا تعارف کروایا۔ انہوں نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس چلے جاؤ جو کھجوروں اور پانی پر ہیں، (یہاں تو) ہر آدمی کا بمشکل اپنا گزارا ہو رہا ہے۔ ہم نے کہا: تیرے خزانے زیادہ ہوں، تم اتنا کرو کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہمارے لیے اجازت لے دو۔ انہوں نے اجازت طلب کی، ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک والے دن خطاب کیا اور فرمایا: ”جو آدمی اپنے گھوڑے کی لگام تھام کر اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور لوگوں کی شرور سے پرہیز کرتا ہے، وہ لوگوں میں بے مثال ہے۔ اور وہ آدمی بھی بے مثال ہے، جو ایک ویرانے میں فروکش ہو کر اپنی بھیڑ بکریاں پالتا ہے، مہمان کی ضیافت کرتا ہے اور اس کا حق ادا کرتا ہے۔“ میں نے کہا: واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ارشاد فرمائیں؟ انہوں نے کہا: (جی ہاں) ارشاد فرمائیں۔ میں نے پھر کہا: واقعی آپ نے یہ باتیں ارشاد فرمائیں؟ انہوں نے کہا: (جی ہاں) فرمائیں۔ میں نے پھر کہا: واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ارشاد فرمائیں؟ انہوں نے کہا: (جی ہاں) فرمائیں۔ میں نے اللہ أکبر اور الحمد للہ کہا اور اس کا شکریہ ادا کیا۔
سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مقام و منزلت کے اعتبار سے بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے گھوڑے کی کمر پر سوار ہو، وہ اپنے دشمنوں کو خوفزدہ کر رہا ہو اور وہ اسے ڈرا رہے ہوں۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دن سرحدی محاذ پر پہرہ دینا گھر میں رہ کر ایک مہینے کے قیام کرنے اور اس کے روزے رکھنے سے بہتر ہے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر کیا کرو تندرست رہو گے اور جہاد کیا کرو بے نیاز ہو جاؤ گے۔“ یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہم اور زید بن اسلم سے مرسلاً مروی ہے۔
|