السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان سفر، جہاد، غزوہ اور جانور کے ساتھ نرمی برتنا यात्रा, जिहाद, जंग और जानवरों के साथ नरमी करना حیوانات کے حقوق “ जानवरों के अधिकार ”
سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے، جس کی پشت (اس کی لاغری کی وجہ سے) اس کے پیٹ سے لگی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، پس تم ان پر سواری بھی اس حال میں کرو کہ یہ ٹھیک ہوں اور ان کو چھوڑ دیا کرو اس حال میں کہ یہ تندرست ہوں۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے، جو اپنا پاؤں بکری کے پہلو پر رکھ کر چھری تیز کر رہا تھا اور وہ اسے کن انکھیوں سے دیکھ رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کام پہلے کیوں نہیں کر لیا؟ کیا تو اسے دو دفعہ ذبح کرنا چاہتا ہے؟“
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور میرے ساتھ رازداری سے ایک بات کی جو میں کسی سے بیان نہیں کروں گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت کے لیے کسی اونچی چیز (دیوار، ٹیلہ وغیرہ) یا کھجور کے جھنڈ کے ساتھ پردہ کرنا سب سے زیادہ پسند تھا۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری آدمی کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اونٹ تھا۔ پس جب اونٹ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، تو بلبلایا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور اس کی کوہان اور کان کے عقبی حصے پر ہاتھ پھیرا تو اس کو قرار آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟“ پس ایک نوجوان انصاری آپ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو اس جانور کے بارے میں، جس کا اللہ نے تجھ کو مالک بنایا ہے، اللہ سے نہیں ڈرتا؟ کیونکہ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور (مشقت زیادہ لے کر) تھکا دیتا ہے۔“
سیدنا معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ان جانوروں پر سوار ہو، اس حال میں کہ یہ صحت مند ہوں اور ان کو صحت و سالمیت کی حالت میں ہی چھوڑ دیا کرو اور ان کو کرسیاں نہ بنا لو (یعنی خوامخواہ ان پر نہ بیٹھے رہو)۔“
عبدالرحمٰن بن عبداللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بشری حاجت کے لیے تشریف لے گئے، ہم نے (چڑیا کی طرح کا) ایک سرخ پرندہ دیکھا، اس کے ساتھ اس کے دو بچے تھے، ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا۔ تو وہ پرندہ (ان کے گرد منڈلانے اور) اپنے بازو پھڑپھڑانے لگا، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور پوچھا: ”اس پرندے کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے رنج پہنچایا ہے؟ اسے اس کے بچے لوٹا دو۔“ پھر آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی دیکھی جس کو ہم نے جلا دیا تھا، آپ نے پوچھا: ”یہ بستی کس نے جلائی ہے؟“ ہم نے جواب دیا: ہم نے (جلائی ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ کا عذاب دینا تو آگ کے رب کو ہی سزاوار ہے۔“
سیدنا سوادہ بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے کچھ اونٹنیوں کا حکم دیا اور مجھے فرمایا: ”جب تو اپنے گھر پہنچے تو انہیں کہنا کہ موسم بہار میں پیدا ہونے والے ان کے بچوں کو اچھی غذا دیں گے، نیز انہیں کہنا کہ وہ اپنے ناخن تراش لیں تاکہ دودھ دوہتے وقت مویشیوں کے تھنوں کو تکلیف نہ ہو۔“
سیدنا سوادہ بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے کچھ اونٹوں کا حکم دیا اور مجھ سے فرمایا: ”اپنے بیٹوں کو حکم دینا کہ اپنے ناخن کاٹ دیں تاکہ اونٹنیوں اور دوسرے مویشیوں کے تھنوں کو تکلیف نہ ہو، اور انہیں یہ بھی کہنا کہ وہ دودھ دوہیں اور ان کے بچوں کے لیے بھی چھوڑیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ قحط سالی کی وجہ سے وہ لاغر و کمزور ہو جائیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تیرے پاس کوئی مال ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، میرے پاس مال، گھوڑے اور غلام ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کو پالنے کا اہتمام کیے رکھ، ان کو سرحدی حفاظت کے لیے تیار رکھ۔ گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ خیر وابستہ ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سرسبز و شاداب زمین آ جائے تو سواری سے نیچے اتر آیا کرو اور اسے چرنے دیا کرو اور جب قحط زدہ زمین آ جائے تو سوار ہو جایا کرو اور رات کو سفر کیا کرو کیونکہ رات کو زمین کی مسافت مختصر ہو جاتی ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی سواریوں کی پیٹھوں کو منبر سمجھ کر (ان پر) بیٹھے ہی نہ رہا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ یہ تمہیں ایسے شہر میں پہنچا دیں جہاں تم بغیر آدھی جان کئے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین بنائی ہے، اس پر اپنی حاجتیں پوری کیا کرو۔“
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تم چوپائیوں سے (ظلم) کرتے ہو، اگر وہ بخش دیا جائے، (تو سمجھ لو کہ) بہت کچھ معاف کر دیا گیا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹوں سے بوجھ اتار دیا کرو، کیونکہ (اس حالت میں) ان کے ہاتھ بھی بندھے ہوتے ہیں اور ٹانگیں بھی بندھی ہوتی ہیں۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سبزہ زاروں میں سفر کر رہے ہو تو جانوروں کو ان کا حق دیا کرو (یعنی ان کو چرنے دیا کرو) اور جب قحط زدہ زمین سے گزر ہو رہا ہو تو تیز چلا کرو اور رات کو سفر کیا کرو کیونکہ رات میں زمین کی مسافت مختصر ہو جاتی ہے۔ جب تم کہیں پڑاؤ ڈالو تو وسط راہ میں ڈیرہ مت لگایا کرو، کیونکہ (ایسے مقامات رات کو) ہر قسم کے جانوروں کا ٹھکانہ ہوتے ہیں۔“
|