زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: بیشک پڑھی تھی، انہوں نے کہا: اے گنجے سر والے، تم ایسا کہتے ہو؟ کس بنا پر تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے کہا: میں قرآن کی دلیل سے کہتا ہوں، میرے اور آپ کے درمیان قرآن فیصل ہے۔ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: جس نے قرآن سے دلیل قائم کی وہ کامیاب رہا، جس نے قرآن سے دلیل پکڑی وہ حجت میں غالب رہا، زر بن حبیش نے کہا: میں نے
«سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجدالحرام إلى المسجد الأقصى» ۱؎ آیت پیش کی، حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم اس آیت میں کہیں یہ دیکھتے ہو کہ آپ نے نماز پڑھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: اگر آپ
( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے وہاں نماز پڑھ لی ہوتی تو تم پر وہاں نماز پڑھنی ویسے ہی فرض ہو جاتی جیسا کہ مسجد الحرام میں پڑھنی فرض کر دی گئی ہے
۲؎، حذیفہ نے کہا: رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لمبی چوڑی پیٹھ والا جانور
(براق) لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر پہنچتی اور وہ دونوں اس وقت تک براق پر سوار رہے جب تک کہ جنت جہنم اور آخرت کے وعدہ کی ساری چیزیں دیکھ نہ لیں، پھر وہ دونوں لوٹے، اور ان کا لوٹنا ان کے شروع کرنے کے انداز سے تھا
۳؎ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے اسے
(یعنی براق کو بیت المقدس میں) باندھ دیا تھا، کیوں باندھ دیا تھا؟ کیا اس لیے کہ کہیں بھاگ نہ جائے؟
(غلط بات ہے) جس جانور کو عالم الغیب والشھادۃ غائب و موجود ہر چیز کے جاننے والے نے آپ کے لیے مسخر کر دیا ہو وہ کہیں بھاگ سکتا ہے؟ نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3147
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتون رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔
2؎:
حذیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ان کے اپنے علم کے مطابق ہے،
ورنہ احادیث میں واضح طورسے آیا ہے کہ آپﷺ نے وہاں انبیاءعليهم السلام کی امامت کی تھی،
اوربراق کو وہاں باندھا بھی تھا جہاں دیگرانبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے (التحفة مع الفتح)
3؎:
یعنی جس برق رفتاری سے وہ گئے تھے اسی برق رفتاری سے واپس بھی آئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3147
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:453
453- زر بن حبیش بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز ادا کی تھی؟ تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے: اے آگے سے گنجے! کیا تم یہ کہہ رہے ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا کی تھی؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ قرآن کرے گا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے: لے کر آؤ، جو شخص قرآن سے دلیل حاصل کرتا ہے، وہ کامیاب ہوجاتا ہے، تو میں نے ان کے سامنے یہ آیت تلاوت کی۔ «سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى» ”پاک ہے وہ ذات ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:453]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ علمی بحث و مباحثہ کرتے رہنا چاہیے، اس سے بہت سی گرہیں کھلتی ہیں۔ معراج برحق ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی معراج کروائی گئی تھی، اس کی تفصیل قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 453