أبواب تفريع استفتاح الصلاة ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل 121. باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ باب: جنہوں نے رکوع کے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا ہے ان کا بیان۔
علقمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ علقمہ کہتے ہیں: پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث سے ماخوذ ایک مختصر ٹکڑا ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 79 (257)، سنن النسائی/الافتتاح 87 (1027)، التطبیق 20 (1059)، (تحفة الأشراف: 9468)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/388، 441)، وقد أخرجہ البخاري في رفع الیدین (32) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ائمہ حدیث: احمد، ابن مبارک، بخاری، رازی ابوحاتم، دارقطنی اور ابن حبان نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، لیکن ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور ابن حزم نے صحیح کہا ہے، نیز یہ حدیث ان احادیث صحیحہ کثیرہ کے معارض نہیں ہے جن سے رکوع وغیرہ میں رفع یدین ثابت ہے اس لئے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یا واجب نہیں ہے، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے یاد نہ رکھنے سے یہ لازم نہیں کہ دوسرے صحابہ کرام کی روایات غلط ہوں، کیونکہ کبار صحابہ نے رفع یدین نقل کیا ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بعض مسائل مخفی رہ گئے تھے، ہو سکتا ہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا تطبیق (یعنی رکوع میں دونوں ہاتھ کو گھٹنے پر نہ رکھ کر دونوں کے بیچ میں رکھنا) کے منسوخ ہونے کا معاملہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے قریب تک اٹھاتے تھے پھر دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1785)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/282، 301، 302، 303) (ضعیف)» (اس کے راوی یزید ضعیف ہیں آخر عمر میں ان کا حافظہ خراب ہو گیا تھا، کبھی «لایعود» کے ساتھ روایت کرتے تھے اور کبھی بغیر اس کے، اس لئے ان کی روایت کا اعتبار نہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
اس طریق سے بھی یزید سے شریک ہی کی حدیث کی طرح حدیث مروی ہے اس میں انہوں نے «ثم لا يعود» (پھر ایسا نہیں کرتے تھے) کا لفظ نہیں کہا ہے۔ سفیان کہتے ہیں: اس کے بعد ہم سے یزید نے کوفہ میں «ثم لا يعود» کہا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو ہشیم، خالد اور ابن ادریس نے یزید سے روایت کیا ہے، ان لوگوں نے «ثم لا يعود» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 1785) (ضعیف)» (گذشتہ حدیث ملاحظہ فرمائیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
اس طریق سے بھی سفیان سے یہی حدیث گذشتہ سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ”آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی دفعہ اٹھایا“، اور بعض لوگوں کی روایت میں ہے کہ ”ایک بار اٹھایا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (748)، (تحفة الأشراف: 9468) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا جس وقت آپ نے نماز شروع کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں اٹھایا یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہو گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1786) (ضعیف)» (اس کے راوی محمد بن ابی لیلی ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ لمبے کر کے اٹھاتے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 63 (240)، سنن النسائی/الافتتاح 6 (884)، (تحفة الأشراف: 13081)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/375، 434، 500)، سنن الدارمی/الصلاة 32 (1273) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|