أبواب تفريع استفتاح الصلاة ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل 131. باب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ باب: ظہر کی قرآت کا بیان۔
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”ہر نماز میں قرآت کی جاتی ہے تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بالجہر سنایا ہم نے بھی تمہیں (جہراً) سنا دیا اور جسے آپ نے چھپایا ہم نے بھی اسے تم سے چھپایا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 11 (396)، (تحفة الأشراف: 14172)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 104 (772)، سنن النسائی/الافتتاح 54 (970)، مسند احمد (2/ 258، 273، 285، 301، 343، 348، 411، 416، 435، 487) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس میں جہر نہیں کیا اسے آہستہ سے پڑھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے اور کبھی ہمیں (ایک آدھ) آیت سنا دیتے تھے، اور آپ ظہر کی پہلی رکعت لمبی اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے، اور اسی طرح صبح کی نماز میں کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مسدد نے «فاتحة الكتاب» اور «سورة» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 96 (759)، 97 (762)، 107 (776)، 109 (887)، 110 (779)، صحیح مسلم/الصلاة 34 (451)، سنن النسائی/الافتتاح 56(975)، 57(976)، 58 (977)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 8 (829)، (تحفة الأشراف: 12108)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/383، 5/295، 297، 300، 301، 305، 307، 308، 310، 311، 383) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے گزشتہ حدیث کے بعض حصے مروی ہیں، اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ پچھلی دونوں رکعتوں میں (صرف) سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے اور حسن بن علی نے بواسطہ «يزيد بن هارون عن همام» اتنی زیادتی اور کی ہے کہ آپ پہلی رکعت اتنی لمبی کرتے جتنی دوسری نہیں کرتے تھے اور اسی طرح عصر میں اور اسی طرح فجر میں (بھی کرتے تھے)۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 12108) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا اس لیے کرتے تھے کہ لوگ پہلی رکعت پا جائیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 798، (تحفة الأشراف: 12108) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم نے خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر میں قرآت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں (قرآت کرتے تھے)، ہم نے کہا: آپ لوگوں کو یہ بات کیسے معلوم ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: آپ کی داڑھی کے ہلنے سے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 91 (746)، 96 (760)، 97، 108 (777)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 7 (826)، (تحفة الأشراف: 3517)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/109،110، 112، 6/395) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام بیہقی نے اس حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ سری قرات میں یہ ضروری ہے کہ آدمی خود کو سنا سکے کیونکہ «اضطراب لحية» زبان اور دونوں ہونٹ ہلے بغیر ممکن نہیں اگر آدمی اپنے دونوں ہونٹ بند رکھے اور صرف زبان ہلائے تو داڑھی نہیں ہل سکتی اور قرات خود کو نہیں سنا سکتا (فتح الباری، حدیث: ۷۶۰) قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی رکعت میں اتنی دیر تک قیام کرتے تھے کسی قدم کی آہٹ نہیں سنی جاتی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداو، (تحفة الأشراف: 5185)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/356) (ضعیف)» (اس کی سند میں رجل مبہم راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی جماعت میں آنے والے سب آ چکے ہوتے کوئی باقی نہیں رہتا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|