سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
121. باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ
باب: جنہوں نے رکوع کے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا ہے ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 752
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ثُمَّ لَمْ يَرْفَعْهُمَا حَتَّى انْصَرَفَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِصَحِيحٍ.
براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا جس وقت آپ نے نماز شروع کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں اٹھایا یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہو گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1786) (ضعیف)» (اس کے راوی محمد بن ابی لیلی ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
محمد بن عبد الرحمٰن بن أبي ليليٰ ضعفه الجمهور،قاله البوصيري (زوائد ابن ماجه:854) وقال ابن حجر: وھو صدوق،اتفقوا علي ضعف حديثه من قبل سوء حفظه(فتح الباري 143/13) وقال أنور شاه الكشميري الديوبندي: فھو ضعيف عندي كما ذھب إليه الجمھور(فيض الباري168/3)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 40
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 752 کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 752
فوائد و مسائل: سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم رفع يديه حين افتتح الصلاة، ثم لم يرفعھما حتي انصرف.» ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، پھر سلام پھیرنے تک دوبارہ نہیں کیا۔“ [سنن ابي داود:752، مسند ابي يعلي:1689، شرح معاني الآثار:224/1]
تبصرہ: اس کی سند ضعیف ہے۔
اس کا راوی ابن ابی لیلیٰ جمہور کے نزدیک
”ضعیف
“ ہے
اس حدیث کے تحت:
◈ امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ھذا الحديث ليس بصحيح.» ”یہ حدیث صحیح نہیں۔
“ ◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ابن أبي ليلي كان سيء الحفظ.» ”ابن ابی لیلیٰ خراب حافظہ والا تھا۔
“ [العلل:143/1] ◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومحمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي لا يحتج بحديثه، وھو أسوأ حالا عند أھل المعرفة بالحديث من يزيد بن أبي زياد.» ”محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی حدیث حجت نہیں لی جائے گی، اس کی حالت محدثین کے نزدیک یزید بن ابی زیاد سے بھی بری تھی۔
“ [معرفة السنن والآثار للبيھقى:419/2] ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 12، حدیث/صفحہ نمبر: 16
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 752
752۔ اردو حاشیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حفاظ حدیث متفق ہیں کہ اس روایت (براء بن عازب) میں «ثم لايعود» کے لفظ مدرج (یعنی الحاقی) ہیں۔ جو کہ یزید بن ابی زیادہ کا اضافہ ہیں۔
◈ جبکہ شعبہ، ثوری، خالد طحان اور زہیر وغیرہ حفاظ نے اس حدیث کو اس اضافے کے بغیر روایت کیا ہے۔
◈حمیدی نے کہا کہ اس اضافے کو یزید نے روایت کیا ہے اور وہ (اپنے نام کے معنی کی مناسبت سے) ”زیادتی کرنے والا ہے۔“
◈عثمان دارمی نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ”یہ صحیح نہیں ہے۔“
◈ایسے ہی امام بخاری رحمہ اللہ، احمد، یحیی، دارمی اور کئی ایک محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔
◈یحیی بن محمد بن یحیی کہتے ہیں میں نے احمد بن حنبل کو سنا کہتے تھے: ” یہ حدیث مگر بعد میں جب اسے ”تلقین“ کی گئی تو اس نے اسے قبول کر لیا اور یہ الفاظ ذکر کرنا شروع کر دئیے۔“ مذيد ديكهيے: [التلخيص الحبير: 1؍22]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 752