Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
121. باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ
باب: جنہوں نے رکوع کے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا ہے ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 751
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ، نَحْوَ حَدِيثِ شَرِيكٍ، لَمْ يَقُلْ: ثُمَّ لَا يَعُودُ، قَالَ سُفْيَانُ، قَالَ لَنَا بِالْكُوفَةِ بَعْدُ: ثُمَّ لَا يَعُودُ، قَالَ أَبُو دَاوُد، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هُشَيْمٌ، وَخَالِدٌ، وَابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ يَزِيدَ لَمْ يَذْكُرُوا: ثُمَّ لَا يَعُودُ.
اس طریق سے بھی سفیان سے یہی حدیث گذشتہ سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی دفعہ اٹھایا، اور بعض لوگوں کی روایت میں ہے کہ ایک بار اٹھایا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (748)، (تحفة الأشراف: 9468) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
انظرالحديث السابق (748)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 40

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 751 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 751  
751۔ اردو حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت امام ترمذی رحمہ اللہ کی تحقیق میں حسن اور امام ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہے۔ علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ اور ان سے پہلے علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح لکھا ہے۔

جبکہ متقدمین حفاظ حدیث کی تحقیق کا خلاصہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یوں بیان کیا ہے کہ:
◈ ابن المبارک نے کہا: یہ حدیث میرے نزدیک ثابت نہیں ہے۔
◈ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے بیان کیا: «هذا حديث خطا» یہ حدیث خطا اور غلط ہے۔
◈ امام احمد حنبل رحمہ اللہ اور ان کے شیخ یحیی بن آدم نے کہا: ضعیف ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ان ہی کی تائید و متابعت کی ہے۔
◈ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا: یہ صحیح نہیں ہے۔
◈ دارقطنی نے کہا: یہ ثابت نہیں ہے۔
◈ ابن حبان نے کہا: اہل کوفہ کے مذہب کے مطابق رکوع کے رفع الیدین کی نفی میں یہ ان کی سب سے عمدہ (احسن) حدیث ہے حالانکہ یہ سب سے زیادہ ضعیف ہے کیونکہ اس میں کچھ علتیں ہیں جن کی بنا پر یہ ضعیف قرار پاتی ہے۔ [التلخيص الحبير: 1؍ 222، نيل الأوطار: 2؍201]
◈ علامہ شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اگر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود والی حدیث کو صحیح تسلیم کر لیں اور ائمہ حدیث کی تنقید کا کوئی اعتبار نہ بھی کریں تو اس حدیث اور دیگر احادیث، جن میں رکوع کے رفع الیدین کا اثبات ہے، میں کوئی تعارض یا منافات نہیں ہے کیونکہ ان احادیث میں امر زائد کا بیان ہے اور (صحیح احادیث سے ثابت) امور زائد بالاجماع مقبول ہوا کرتے ہیں بالخصوص جبکہ اسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا ہو اور محدثین کی ایک جماعت اس کی راوی ہو۔ [نيل الاوطار: 2؍202]

ملحوظہ:
یہ قاعدہ سجدوں کے رفع الیدین پر منطبق نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ صحیح اسانید سے ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بالوضاحت کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع الیدین نہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث: 735 و صحيح مسلم، حديث: 39]
علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث (یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث) سے دیگر مواقع کے رفع الیدین کا ترک ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس حدیث میں نفی کا بیان ہے اور دیگر صحیح احادیث میں اثبات ہے اور اثبات ہمیشہ مقدم ہوا کرتا ہے۔ چونکہ یہ عمل سنت ہے، ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک یا زیادہ بار اسے ترک بھی کیا ہو۔ مگر اغلب اور اکثر اس پر عمل کرنا ہی ثابت ہے لہٰذا رکوع کے لیے جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ہی سنت ہے [حواشي جامع ترمذي: 2؍41 بتحقيق احمد شاكر]

راقم عرض کرتا ہے کہ صحیح احادیث میں تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں کہیں محسوس ہوتا ہے وہ یا تو نقل کی خرابی ہوتی ہے یا عقل و فہم کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت اسنادی بحث سے قطع نظر معنوی اعتبار سے بھی قابل بحث ہے۔
● اول تو اس میں سوائے ایک بار رفع الیدین کے اثباتاً یا نفیاً اور کوئی بات مذکورہ نہیں ہے حالانکہ نماز کے بیسیوں مسائل ہیں۔ جیسے ان کے نہ ذکر کرنے سے ان کی نفی ہوتی۔ ایسے ہی رکوع کا رفع الیدین ہے۔
● دوسرے اس کو متنازع رفع الیدین کے ساتھ خاص کرنے کی بجائے اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت میں اٹھتے ہوئے پھر دوبارہ رفع الیدین نہ کیا، بلکہ پہلی رکعت ہی میں ایک بار ہاتھ اٹھائے تھے۔ یا جیسے کہ سید اسمعیل شہید رحمہ اللہ نے بحوالہ فتوحات لکھا ہے کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نماز شروع کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار ہاتھ نہ اٹھاتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے بلکہ صرف ایک ہی بار اٹھانا مسنون ہے۔ (جیسے کہ بعض وسوسہ زدہ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ان کی نیت ہی سیدھی نہیں ہو پاتی ہے اور وہ بار بار ہاتھ اٹھاتے اور باندھے ہیں۔)
↰ محدثین کرام پر اللہ بے شمار رحمتیں ہوں، انہوں نے دین کی امانت پوری دیانت کے ساتھ . . . اپنی اسانید سے . . . بلاکم و کاست امت کے حوالے کر دی ہے۔ اور اس میں اصحاب بصیرت کو دعوت ہے کہ مسلمہ اصولوں کے تحت آپ لوگ بھی تنقیح کر سکتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ عصمت صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ آپ کے بعد تلامذہ رسول، تابعین عظام اور ائمہ امت سب کے سب قابل اعزاز و اکرام ہیں مگر حجت اور اللہ کے ہاں قربت کتاب اللہ اور صحیح ثابت شدہ فرامین رسول میں ہے۔
«رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ» [الحشر: 10]
«رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ» [آل عمران: 8]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 751