أبواب تفريع استفتاح الصلاة ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل 174. باب التَّأْمِينِ وَرَاءَ الإِمَامِ باب: امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «ولا الضالين» پڑھتے تو آمین کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 72 (248)، (تحفة الأشراف: 11758)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الافتتاح 4 (880)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 14 (855)، مسند احمد (4/316)، سنن الدارمی/الصلاة 39 (1283) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (845) رواه يحيي القطان عن الثوري به (سنن الترمذي: 248) وھو لا يروي عنه إلا ما صرح بالسماع
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے زور سے آمین کہی اور اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گال کی سفیدی دیکھ لی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11758) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
أخرجه البيھقي في الخلافيات (2/ 320 ح 1611 وسنده حسن) وعنده العلاء بن صالح وھو الصواب، والعلاء بن صالح: وثقه يحيي بن معين ويعقوب بن سفيان الفارسي والعجلي وابوحاتم الرازي وابوزرعة الرازي وابن حبان وغيرهم، وعلي بن صالح حسن الحديث ايضًا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کی تلاوت فرماتے تو آمین کہتے یہاں تک کہ پہلی صف میں سے جو لوگ آپ سے نزدیک ہوتے اسے سن لیتے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 14 (853)، (تحفة الأشراف: 15444) (ضعیف)» (اس کے راوی ابن عم ابوہریرة لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف ابن ماجه (853) بشر بن رافع ضعيف الحديث (تقريب التهذيب: 685) و أبو عبد اللّٰه ابن عم أبي هريرة: لا يعرف (ميزان الإعتدال 4/ 545) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 46
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہو جائے گا اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 111 (780)، 113 (782)، وتفسیر الفاتحة 3 (4475)، والدعوات 63 (6402)، سنن النسائی/الافتتاح 34 (930)، موطا امام مالک/الصلاة 11(45)، مسند احمد (2/238، 459)، سنن الدارمی/الصلاة 38 (1281)، (تحفة الأشراف: 12576)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 18 (410)، سنن الترمذی/الصلاة 73 (250)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 14 (851) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (782) صحيح مسلم (409)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گی اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے“۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 13230، 1542) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (780) صحيح مسلم (410)
بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2044)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/12) (ضعیف)» (ابوعثمان نہدی کی ملاقات بلال رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اتنی مہلت دیا کیجئے کہ میں سورۃ فاتحہ سے فارغ ہو جاؤں تاکہ آپ کی اور میری آمین ساتھ ہوا کرے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بات مروان سے کہا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
الثوري تابعه شعبة عند احمد (6/ 15 ح 23920 وسنده صحيح) وصححه ابن خزيمة (573) والحاكم علي شرط الشيخين (1/ 219 وقال: وأبو عثمان النهدي مخضرم، قد أدرك الطائفة الأولي من الصحابة) ووافقه الذھبي، قلت: رواية أبي عثمان النھدي عن بلال الحبشي محمولة علي السماع، انظر الجوھر النقي (2/ 23) قال معاذ: والثوري تابعه عباد بن عباد وأبو شھاب عبدربه بن نافع في مسائل حرب الكرماني (827، نسخه أخريٰ: 458، وسنده صحيح)
ابومصبح مقرائی کہتے ہیں کہ ہم ابوزہیر نمیری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا کرتے تھے، وہ صحابی رسول تھے، وہ (ہم سے) ا چھی اچھی حدیثیں بیان کرتے تھے، جب ہم میں سے کوئی دعا کرتا تو وہ کہتے: اسے آمین پر ختم کرو، کیونکہ آمین کتاب پر لگی ہوئی مہر کی طرح ہے۔ ابوزہیر نے کہا: میں تمہیں اس کے بارے میں بتاؤں؟ ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہم لوگ ایک شخص کے پاس پہنچے جو نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر سننے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس نے (اپنی دعا پر) مہر لگا لی تو اس کی دعا قبول ہو گئی“، اس پر ایک شخص نے پوچھا: کس چیز سے وہ مہر لگائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آمین سے، اگر اس نے آمین سے ختم کیا تو اس کی دعا قبول ہو گئی“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر وہ شخص (جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا) اس آدمی کے پاس آیا جو دعا کر رہا تھا اور اس سے کہا: اے فلاں! تم اپنی دعا پر آمین کی مہر لگا لو اور خوش ہو جاؤ۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12042) (ضعیف)» (اس کے راوی صبیح بن محرز لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف صبيح بن محرز مجهول الحال،لم يوثقه غير ابن حبان انوار الصحيفه، صفحه نمبر 46 |