Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
121. باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ
باب: جنہوں نے رکوع کے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا ہے ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 753
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَمْعَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ لمبے کر کے اٹھاتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 63 (240)، سنن النسائی/الافتتاح 6 (884)، (تحفة الأشراف: 13081)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/375، 434، 500)، سنن الدارمی/الصلاة 32 (1273) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 753 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 753  
753۔ اردو حاشیہ:
اس حدیث میں رفع الیدین کرنے کا انداز بیان فرمایا گیا ہے، سنن دارمی کی روایت میں ہے: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو اپنی انگلیوں کو قدرے کھولے ہوئے ہوتے تھے۔ [نيل الاوطار 197/2]
اس حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ رکوع کا رفع الیدین نہیں ہے، کسی طور صحیح نہیں اور اس میں اس کا کوئی قرینہ بھی نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 753   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 220  
´سورہ فاتحہ کے اختتام و اتمام پر آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے`
«. . . وعن نعيم المجمر قال: صليت وراء ابي هريرة رضي الله تعالى عنه. فقرا بسم الله الرحمن الرحيم،‏‏‏‏ ثم قرا بام القران حتى إذا بلغ" ولا الضالين" قال:"آمين . . .»
. . . سیدنا نعیم المجمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز پڑھی تو انہوں نے پہلے «بسم الله» تلاوت فرمائی پھر بعدازاں «‏‏‏‏ام القران» ‏‏‏‏ (سورۃ «فاتحه») پڑھی تاآنکہ آپ «ولا الضالين» پر پہنچ گئے اور «‏‏‏‏آمين» ‏‏‏‏ کہی . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 220]
فوائد ومسائل:
➊ یہ حدیث بسم اللہ اور آمین بالجہر کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ جو آدمی (امام سے متصل صف سے) پچھلی صف میں ہو گا اسے امام کی قرأت اور آمین اسی صورت میں سنائی دے گی جب کہ امام بلند آواز سے پڑھے (ورنہ اسے سنائی نہیں دے گی۔)
➋ بسم اللہ اور آمین کے بلند آواز سے کہنے میں اختلاف ہے، باعتبار دلیل قابل ترجیح بات یہی ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو آہستہ اور آمین بلند آواز سے کہی جائے۔
➌ سورہ فاتحہ کے اختتام و اتمام پر آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے، خواہ امام ہو یا مقتدی یا تنہا۔
➍ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک آمین کہنا واجب ہے اور اسے چھوڑنے والا گناہ گار ہے۔
➎ آمین کے معنی ہیں: اے اللہ! میری دعا قبول فرما۔

راویٔ حدیث: (نعیم مجمر رحمہ اللہ) ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی، نُعَیْم، نَعِیْم کی تصغیر ہے۔ مُجْمِر میں میم پر ضمہ، جیم ساکن اور دوسرے میم کے نیچے کسرہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آل کے آزاد کردہ غلام تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر جمعہ کو دوپہر کے بعد مسجدِ نبوی میں خوشبو کی دھونی دیا کرتے تھے، اسی وجہ سے ان کا نام مجمر (خوشبو کی دھونی دینے والا) مشہور ہو گیا۔ مشہور تابعی تھے۔ ابوحاتم، ابن معین، ابن سعد اور نسائی رحمہم اللہ نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 220   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 232  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا قام إلى الصلاة يكبر حين يقوم ثم يكبر حين يركع ثم يقول: «سمع الله لمن حمده» حين يرفع صلبه من الركوع ثم يقول وهو قائم: «ربنا ولك الحمد» ثم يكبر حين يهوى ساجدا ثم يكبر حين يرفع رأسه ثم يكبر حين يسجد ثم يكبر حين يرفع ثم يفعل ذلك في الصلاة كلها ويكبر حين يقوم من الثنتين بعد الجلوس .متفق عليه. . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو «الله اكبر» کہتے۔ پھر جب رکوع کیلئے جاتے تو اس وقت «الله اكبر» کہتے۔ پھر رکوع سے اٹھتے وقت «سمع الله لمن حمده» کہتے ہوئے کھڑے ہو جاتے اور پھر جب رکوع سے سیدھے کھڑے ہو جاتے تو «ربنا ولك الحمد» کہتے۔ پھر سجدے میں جاتے وقت تکبیر «الله اكبر» کہہ کر سجدے کیلئے جھکتے پھر سجدے سے اٹھتے ہوئے «الله اكبر» کہتے پھر سجدے میں جاتے تو «الله اكبر» کہتے پھر سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے «الله اكبر» کہتے پھر ساری نماز اسی طرح کرتے جاتے تھے۔ پھر جب دوسری رکعت کی (تکمیل) کے بعد تشہد پڑھ کر اٹھتے تو بھی «الله اكبر» کہتے۔ (بخاری و مسلم) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 232]
لغوی تشریح:
«رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» بعض روایات میں «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» بھی مروی ہے، یعنی «لَكَ» سے پہلے واؤ بعض روایات میں ہے اور بعض میں نہیں ہے۔ دونوں طرح ثابت ہے۔ واؤ کو جب ثابت رکھیں گے تو اس صورت میں محذوف پر عطف ہو گا، یعنی «أَطَعْنَاكَ وَ حَمِدْنَاكَ» ہم نے تیری اطاعت اور حمد و ستائش کی۔ یا واؤ کو حالیہ تسلیم کیا جائے گا، یا پھر اسے زائدہ قرار دیا جائے گا۔ ساری صورتیں ممکن ہیں۔ بعض روایات میں «اللّٰهُمَّ! رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» بھی آیا ہے۔
«يَهْوِي» باب «ضَرَبَ يَضْرِبُ» سے ماخوذ ہے، یعنی جھکنا، مائل ہو جانا، گر جانا۔

فوائد و مسائل:
① نماز میں جو تکبیریں کہی جاتی ہیں ان میں سے پہلی تکبیر کو تکبیر تحریمہ، تکبیر افتتاح یا تکبیر اولیٰ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب نماز میں داخلے کے بعد وہ سارے کام اور چیزیں حرام ہو گئیں جو نماز شروع کرنے سے پہلے حلال تھیں۔ باقی تکبیرات کو تکبیرات انتقال کہتے ہیں، یعنی ایک رکن نماز سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کی تکبیریں۔
➋ پہلی تکبیر (تکبیر تحریمہ) فرض ہے اور باقی تکبیریں بعض کے نزدیک واجب ہیں مگر اکثر کے نزدیک مسنون ہیں۔
➌ بنو امیہ کے دور میں بعض امرائے بنو امیہ نے ان تکبیروں کو اہمیت نہ دی اور معمولی سمجھ کر چھوڑ دیا تھا مگر اس دور کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ لوگوں کو ان کے مسنون ہونے کی تعلیم و یاد دہانی کراتے رہتے تھے تاکہ لوگ سنت نبوی پر عمل پیرا رہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق منقطع نہ ہونے پائے۔
➍ ہر دور میں علماۓ حق کا فریضہ یہ ہے کہ وہ نادان اور جاہل لوگوں کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت و فضیلت سے آگاہ رکھیں اور انکار سنت کے فتنے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 232   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 210  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز ادا کرنے کیلئے کھڑا ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو اچھی طرح کر لو پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر «الله اكبر» کہو۔ پھر قرآن کا جتنا حصہ تمہیں یاد ہو اس میں سے جتنا آسانی سے پڑھ سکتے ہو، پڑھو۔ پھر رکوع کرو اور پوری طرح اطمینان سے رکوع کرو۔ پھر سیدھا کھڑے (ہو جاؤ) اور پورے اطمینان سے کھڑے رہو، پھر سجدہ کرو اور پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر سجدہ سے اٹھ کر پورے اطمینان سے بیٹھ جاؤ پھر دوسرا سجدہ کرو اور پورے اطمینان سے کرو۔ پس پھر باقی ساری نماز میں اسی طرح (اطمینان سے ارکان نماز ادا کرو)۔ اسے بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ امام بخاری کے ہیں۔ ابن ماجہ نے مسلم کی سند سے رکوع سے کھڑے ہونے کے وقت یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ پورے اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ۔ احمد اور ابن حبان میں رفاعہ بن رافع بن مالک کی روایت میں بھی اسی طرح ہے اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اپنی کمر (پشت) کو سیدھا کرو کہ ہڈیاں اپنے مقام میں واپس آ جائیں۔ نسائی اور ابوداؤد میں رفاعہ بن رافع سے ہے کہ جب تک وضو کامل نہ ہو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے اس وقت تک نماز مکمل نہیں ہو سکتی۔ پھر تکبیر کہے اور اللہ کی حمد و ثناء کرے اور اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے اگر تجھے قرآن کا کچھ حصہ یاد ہو تو اسے پڑھ بصورت دیگر اللہ کی حمد و توصیف کر «الله اكبر» اور «لا إله إلا الله» ۔ ابوداؤد میں ہے کہ پھر سورۃ «فاتحه» پڑھ اور مزید جو اللہ نے چاہا۔ ابن حبان میں ہے پھر جو تم چاہو پڑھو۔ [بلوغ المرام/حدیث: 210]
210 لغوی تشریح:
«فَأَسْبِغِ اَلْوُضُوءَ» «أَسْبِغِ» امر کا صیغہ ہے، مبالغہ کرو، پوری طرح کرو۔
«تَعْتَدِلَ» ‏‏‏‏ اعتدال پر آ جائیں، برابر اپنی جگہ پر آ جائیں۔
«قَائِمًا» ‏‏‏‏ سیدھے کھڑے ہونا جس میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کچھ بھی جھکاؤ نہ ہو۔
«فَأَقِمْ صُلْبَكَ» رکوع سے جب سر اٹھائے تو اپنی پشت اس طرح سیدھی کر کہ اس میں کسی قسم کا ٹیڑھ اور جھکاؤ نہ ہو۔
«اَلْعِظَامُ» ‏‏‏‏ ہڈیاں۔ پشت کی ہڈیاں اور اس کے جوڑ مراد ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی بھی ہو سکتی ہے۔
«يُثْنِيَ عَلَيْهِ» باب افعال سے ہے اور یا پر ضمہ ہے۔ اس کی حمد و بزرگی بیان کرے اور تعریف بھی مبالغے کی حد تک کرے۔
«وهلِّلْهُ» ‏‏‏‏ «تهليل» سے امر کا صیغہ ہے مطلب ہے کہ «لا اله الا الله» کہو۔ یہ حدیث حدیث «مسي الصلاة» کے نام سے مشہور و معروف ہے۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو ارکان نماز پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے، لہٰذا ہر رکن نماز کے اندر اور دو ارکان کے درمیانی وقفہ میں اطمینان و اعتدال واجب ہے۔
➋ حدیث کے الفاظ «ثُمَّ اِقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ» سے ظاہر ہوتا ہے کہ قراءت قرآن واجب ہے، ایک دوسری روایت میں «ثُمَّ اِقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ» کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ «مَا تَيَسَّ» اور «بِأُمِّ الْقُرْآنِ» دونوں ایک ہی معنی دے رہے ہیں اور وہ فاتحہ ہی ہے۔
➌ اس حدیث میں نماز کی ترتیب اور اعتدال کی تعلیم دی گئی ہے۔
➍ امام مقتدی اور منفرد سب کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اعتدال کو ملحوظ رکھ رہے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو بدترین چور اور ایسی نماز کو منافق کی نماز قرار دیا ہے۔

راوی حدیث:
رفاعۃ بن رافع بن مالک رضی اللہ عنہ، ابومعاذ ان کی کنیت ہے، زرقی انصاری مدنی مشہور ہیں۔ جلیل القدر صحابی ہیں۔ یہ اپنے باپ کے ساتھ بیعت عقبہ میں حاضر تھے۔ ان کے والد انصار میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ بدر و احد اور باقی سب غزوات میں شریک رہے ہیں۔ جنگ جمل و صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں شامل تھے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں 41 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 210   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 757  
´امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّ وَقَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ . . .»
. . .ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اس کے بعد ایک اور شخص آیا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ واپس جاؤ اور پھر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 757]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ جو قرآن تجھے یاد ہو اسے آسانی سے پڑھ لے اور سنن ابی داؤد میں رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے حدیث منقول ہے کہ:
«إذا قمت فتوجهت إلى القبلة فكبر، ثم اقرا بام القرآن وبماشاء الله ان تقرا، . . . . . . . .» [ابوداود كتاب الصلاة رقم الحديث 859]
جب تو (نماز کے لئے) کھڑا ہو تو چہرہ قبلہ کی طرف کر لے اور اللہ اکبر کہہ پھر سورۃ الفاتحہ پڑھ اور جو تو پڑھ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے جس مسئلہ کی طرف اشارہ فرمایا رفاعہ بن رافع کی حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ ہر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے چاہے وہ جہری ہو یا سری قصر ہو یا حضر، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث کی مناسبت ہے۔ کیونکہ آسانی سے جتنا ہو سکے اتنا قرآن پڑھو یہ پڑھنا سورۃ الفاتحہ کے بعد ہی ہے، لہٰذا سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«المراد بقوله: فاقرا ماتيسر معك من القرأن اي بعد الفاتحة» [فتح الباري ج 2 ص 309]
جتنا آسانی سے ہو اتنا قرآن پڑھو یہ حکم سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے بعد کا ہے (یعنی سورۃ الفاتحہ ہر حالت میں سب پر فرض ہے)۔

فائدہ:
مذکورہ حدیث سے واضح ہوا کہ تعدیل ارکان انتہائی ضروری ہیں جب تک رکن ٹھہر ٹھہر کر ادا نہ ہو گا تو نماز باطل ہو گی۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی ہی بار اس صحابی کو صحیح نماز کیوں نہ سکھائی حالانکہ تین مرتبہ انہیں نماز کا اعادہ کرنے کا حکم دیا تو اس سوال کے جوابات کئی طریقوں سے دیئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کسی خاص مسئلہ کی وضاحت کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ اس بات کو دہراتے، لہٰذا نماز کا مسئلہ بھی اہم ترین تھا اسی لیے تین دفعہ اس شخص کو لوٹا کے پھر اس کی نماز کی تصحیح فرمائی۔
➋ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دیکھنا چاہتے ہوں کہ یہ اپنے نماز کے افعال بھول گیا ہے یا غافل ہونے کی وجہ سے تاکہ اگر وہ غفلت کی وجہ سے کر رہا ہو تو اس کی بھی وضاحت کر دی جاتی اور اگر غلطی ہوتی تو اس کی اصلاح۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح میں تاخیر فرمائی تاکہ ان کی مکمل غلطیوں کی اصلاح کر دی جائے۔
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس لئے اصلاح نہ کی ہو گی کہ وہ خود سوال کرے علم کے متعلق جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ جب اس شخص نے کہا: مجھے نماز پڑھنا سکھائیے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز کا صحیح طریقہ سکھایا۔
➎ اس میں ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلی بار جب اس شخص نے نماز پڑھی تو عاجزی نہ ہو گی اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار کے بعد ہی جب اس نے عاجزی کی تو نماز کا صحیح طریقہ بتایا۔
➏ بعضوں نے یہ بھی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر بار یہ امید ہو گی کہ وہ اب صحیح نماز ادا کرے گا لیکن اسے نماز صحیح ادا نہیں کرنے آئی۔۔۔
مزید تفصیل کے لیے ان کتب کی طرف مراجعت کی جائے۔ « [فتح الباري ج2 ص308 تا ص309، المتواري ص102، ذخيرة العقبي ج11 ص110، كشف المشكل ج1 ص404] »

فائدہ نمبر 2:
سورۃ فاتحہ ہر نماز میں فرض ہے کیوں کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی کتب احادیث اور شروحات میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ تمام لوگوں کے لیے چاہے وہ امام ہو یا مقتدی اکیلا ہو یا جماعت کے ساتھ ہر حالت میں سورہ فاتحہ فرض قراد دی گئی ہے۔ [الكواكب الدراري ج5 ص111]

◈ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «استدل بهذا الحديث عبدالله بن مبارك والاوزاعي ومالك والشافعي وأحمد وإسحٰق وأبوثور وداؤد وجوب قراءة الفاتحة خلف الامام فى جميع الصلٰوت .» [عمدة القاري ج3 ص326]
یعنی اس حدیث (عبادة رضی اللہ عنہ) سے امام عبداللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی، امام أحمد، امام اسحق، امام ابوثور، امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے (مقتدی) کے لیے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی وجوب پر دلیل اخذ کی ہے۔‏‏‏‏

◈ امام نووی رحمہ اللہ المجموع شرح المھذب میں رقمطراز ہیں:
یعنی جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ سکتا ہے اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے اور ارکان نماز میں سے ایک رکن ہے اور یہ سورۃ فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کے بجائے غیر عربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہو سکتا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی دیگر آیت۔ اور اس تعین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں فرض ہوں یا نفل، جہری یا سری، مرد ہو یا عورت، مسافر، لڑکا (نا بالغ) اور کھڑا ہو کر نماز پڑھنے والا اور بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں یکساں ہیں۔

◈ امام خطابی رحمہ الله سورہ فاتحہ کی فرضیت پر حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«هذا الحديث نص صريح بان قرأة الفاتحه واجبة على من صلى خلف الامام سواء جهر الامام بالقرأة او خافت بها و اسناده جيد لا طعن فيه .» [معالم السنن شرح ابي داؤد ج1 ص919]
یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرأت بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کر کے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا اور اس کی وجہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر کسی کی نماز نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت پختہ ہے۔

❀ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلى صلوة لم يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهي خداج غير تمام» [جزء القراة ص8]
جس شخص نے کسی نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی وہ ناقص ہے پوری نہیں۔
مذکورہ بالا حدیث میں بغیر سورۃ فاتحہ کی نماز کو خداج کہا جا رہا ہے۔

◈ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«معناه ناقصة نقص فساد و بطلان يقول العرب اخدجت الناقة اذا القت ولدها وهو دم لم يستبن خقه . . . .» [معالم السنن ج1 ص203]
حاصل کلام یہ ہے کہ جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ فاسد اور باطل ہے۔ اہل عرب «اخدجت الناقة» اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی اپنے بچے کو اس وقت گرا دے کہ وہ خون ہو اور اس کی خلقت و پیدائش ظاہر نہ ہو۔ اسی لیے لفظ خداج لیا گیا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ «خداج» وہ نقصان ہے جس سے نماز نہیں ہوتی اور اس کی مثال اونٹنی کے مردہ بچے کی سی ہے۔

◈ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وايں حديث لا شواهد بسيار است» [مسك الختام شرح بلوغ المرام ج1 ص219]
یعنی قرأت سورۃ فاتحہ خلف الامام کی شواہد بہت زیادہ ہیں۔

◈ امام عبد الوہاب الشعرانی فرماتے ہیں:
جن علماء نے سورۃ فاتحہ کو نماز میں متعین فرمایا ہے اور کہا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ اور پڑھنا کفایت نہیں کرتا۔ اولاً تو ان کے پاس احادیث کثرت سے ہیں جو کہ تواتر کو پہنچنے والی ہیں ثانیاً: سلف و خلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین وتبع تابعین وائمہ عظام رحمہ اللہ علیہم کا عمل بھی تعین فاتحہ اور نماز کی تائید کرتا ہے۔ [ميزان الكبري ج1 ص166]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 193   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 113  
´نماز میں ہر اونچ نیچ کے وقت تکبیر کہنا`
«. . . ان ابا هريرة كان يصلي بهم فيكبر كلما خفض ورفع، فإذا انصرف قال: والله إني لاشبهكم صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ انہیں نماز پڑھاتے تو ہر اونچ نیچ میں تکبیر (اللہ اکبر) کہتے پھر جب نماز سے فارغ ہوتے تو فرماتے: اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 113]
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 76/1 ح 163، ك 3 ب 4 ح 19، التمهيد 79/7، الاستذكار: 143، و أخرجه البخاري 785، ومسلم392، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز میں تکبیر کہنا سکھاتے اور اونچ نیچ میں تکبیر کہنے کا حکم دیتے تھے۔ [موطأ امام مالك 77/1 ح 166، وسنده صحيح]
➋ اونچ سے مراد سجدے سے سر اٹھانا ہے، رکوع سے سر اٹھانا یہاں مراد نہیں کیونکہ اس کی تخصیص کی واضح دلیل موجود ہے۔ رکوع کے بعد «سمع الله لمن حمده» کہا جائے گا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مفصل حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري: 803، صحيح مسلم: 392/28]
➌ امام یہ تکبیریں جہراً کہے گا جیسا کہ [السنن الكبريٰ للبيهقي 18/2،] کی حسن لذاتہ (صحیح) حدیث سے ثابت ہے اور مقتدی یہ تکبیریں سراً (دل میں) کہیں گے جیسا کہ صحیح بخاری [4534]، و صحیح مسلم [539] کی احادیث سے ثابت ہے اور اسی پر اجماع ہے۔
➍ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ اگر آدمی (امام کو) رکوع میں پائے تو اسے ایک تکبیر کافی ہے (بشرطیکہ تکبیر افتتاح کی نیت کرے) دیکھئے: [موطأ امام مالك 77/1 ح 167، وسنده صحيح]
● تقریباً یہی مؤقف امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ اور حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ کا ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 242/1 ح 2509 وسنده صحيح، 243/1 ح 2514 وسنده صحيح] اور رکوع کے لئے علیحدہ اور افتتاح کے لئے علیحدہ دو تکبریں کہنا بھی جائز ہیں جیسا کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ثابت ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 243/1 ح 2515 وسنده حسن]
➎ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین کرتے تھے۔ [جزٔ رفع اليدين للبخاري: 22 وسنده صحيح]
● سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیثِ موطأ کی ایک سند میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتیٰ کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے دیکھئے: [صحيح بخاري:803] لہٰذا یہ ثابت ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک رفع الیدین کرتے تھے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 22   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6251  
´احادیث کو ٹکڑوں کی صورت میں جمع کیا جانا`
جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 828]
فقہ الحدیث
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ راوی ایک روایت بیان کرتا ہے، اس کے بعض شاگرد اسے مکمل مطول اور بعض شاگرد مختصر و ملخص بیان کرتے ہیں۔ مثلاً صحیح بخاری میں «مسئي الصلوة» کی حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا قمت إلى الصلوة فكبر» إلخ جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ…..إلخ [كتاب الاذان، باب وجوب القرأة للإمام و المأموم۔۔ ح757]
↰ اس میں قبلہ رخ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ قبلہ رخ ہونا نماز کا رکن اور فرض ہے۔ وضو کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس حدیث کی دوسری سند میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا قمت إلى الصلوة فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلة فكبر» إلخ
جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو پورا وضو کر، پھر قبلہ رخ ہو جا، پس تکبیر کہہ۔ إلخ [صحيح البخاري، كتاب الاستئذان، باب من رد فقال: عليك السلام ح 6251]
اب اگر کوئی منکر حدیث یہ شور مچانا شروع کر دے کہ پہلی حدیث میں استقبال قبلہ اور وضو کا ذکر نہیں ہے۔ اور معرض بیان میں عدم ذکر کتمان ہے جو یہود کا شیوہ ہے!
تو اس گمراہ و بے وقوف کا شور باطل و مردود ہے۔ اسے سمجھایا جائے گا کہ ایک صحیح روایت میں ذکر ہو اور دوسری صحیح میں ذکر نہ تو عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔ احادیث کی تمام سندیں اور متون جمع کر کے مشترکہ مفہوم پر عمل کرنا چاہئے۔

◈ انور شاہ کشمیری دیوبندی کہتے ہیں کہ:
«اعلم أن الحديث لم يجمع إلا قطعة فتكون قطعة عند واحد وقطعة أخري عند واحد فليجمع طرقه و ليعمل بالقدر المشترك ولا يجعل كل قطعة منه حديثا مستقلا»
مفہوم: اور جان لو کہ احادیث کو ٹکڑوں کی صورت میں جمع کیا گیا ہے۔ پس ایک ٹکڑا ایک راوی کے پاس ہوتا ہے اور دوسرا دوسرے کے پاس، لہٰذا چاہئے کہ احادیث کی تمام سندیں (اور متون) جمع کر کے حاصل مجموعہ پر عمل کیا جائے اور ہر ٹکڑے کو مستقل حدیث نہ بنایا جائے [فیض الباری ج 3 ص 455]

◈ احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں کہ:
صدہا مثالیں اس کی پائے گا کہ ایک ہی حدیث کو رواۃ بالمعنی کس کس متنوع طور سے روایت کرتے ہیں، کوئی پوری، کوئی ایک ٹکڑا، کوئی دوسرا ٹکڑا، کوئی کس طرح، کوئی کس طرح۔ جمع طرق سے پوری بات کا پتہ چلتا ہے۔ [فتاوي رضويه نسخه جديده ج 5 ص 301]
↰ لہذا جو لوگ شور مچاتے ہیں کہ صحیح بخاری میں سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ والی حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین نہیں ہے، ان کا شور غلط اور مردود ہے۔
 حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا یہ مکمل مضمون طریقہ نماز سے متعلق مشہور حدیثِ ابو حمید الساعدی، سند کی تحقیق اور شبہات کا ازالہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 18، حدیث/صفحہ نمبر: 29   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 803  
فقہ الحدیث
ایک اھم نکتہ
صحیح سند سے ثابت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [جزء رفع الیدین للبخاری: 22 و سندہ صحیح]
اور یہ بھی صحیح ثابت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز، رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور دو رکعتوں سے اٹھ کر رفع یدین کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه ج 1ص 344، 345 ح 694، 695 وسنده صحيح، وقال الحافظ ابن حجر فى كتابه موافقة الخبر الخبر 409، 410/1 هذا حديث صحيح]
↰ ابن جریح نے سماع کی تصریح کر دی ہے اور یحییٰ بن ایوب الغافقی پر جرح مردود ہے، وہ جمہور کے نزدیک ثقہ وصدوق راوی ہیں اور عثمان بن الحکم نے ان کی متابعت کر دی ہے۔ اس روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ «ولا يفعله حين يرفع رأسه من السجود» یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز کا مفصل ذکر موجود ہے مگر اس میں شروع نماز، رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور رکعتیں (دو رکعتوں) کے بعد کسی رفع یدین کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اس حدیث کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نماز کے بارے میں فرماتے: «إن كانت هذه لصلاته حتي فارق الدنيا» آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔ [صحيح بخاري مع فتح الباري ج 2 ص 290 ح 803]
↰ اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وہی نماز پڑھتے تھے جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز تھی۔ اب چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفاً و مرفوعاً دونوں طرح شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین ثابت ہے لہذا اس سے خودبخود ثابت ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک رفع یدین کرتے تھے۔ جس شخص کو اس سے اختلاف ہے تو اسے چاہئے کہ وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے باسند صحیح یا حسن ترک رفع یدین کا ثبوت پیش کرے۔ اس استدلال کے بعد «التحقیق الراسخ فی أن أحادیث رفع الیدین لیس لھانا سخ» پڑھنے کا اتفاق ہوا تو بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے استادوں کے استاد (شیخ الشیوخ) حافظ محمد گوندلوی رحمه الله نے بھی یہی استدلال کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رفع یدین ثابت کیا ہے۔ دیکھئے التحقیق الراسخ [ص 90، 91 نویں حدیث] «والحمدلله»
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سجدوں میں بھی رفع یدین ثابت ہے۔ [بحواله سنن ابن ماجه ص 62 ح 860 ومسند احمد 132/2 ح 6163]
↰ تو عرض ہے کہ یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
⟐ اسماعیل بن عیاش کی غیر شامیین و حجازیین سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی [باب ماجاء فی الجنب والحائض ح 131] وتہذیب الکمال [214/2۔ 217]
⟐ اسماعیل بن عیاش مدلس ہیں۔ [طبقات المدلسین 3/68، المرتبۃ الثالثہ] اور یہ روایت عن سے ہے۔
↰ اس ضعیف سند سے استدلال مردود ہے۔ شیخ البانی رحمه الله کو بڑا وہم ہوا ہے، انہوں نے بغیر کسی دلیل کے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «انا لله وانا اليه راجعون»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 18، حدیث/صفحہ نمبر: 30   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 860  
فقہ الحدیث
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سجدوں میں بھی رفع یدین ثابت ہے۔ [بحواله سنن ابن ماجه ص 62 ح 860 ومسند احمد 132/2 ح 6163]
↰ تو عرض ہے کہ یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
⟐ اسماعیل بن عیاش کی غیر شامیین و حجازیین سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی [باب ماجاء فی الجنب والحائض ح 131] وتہذیب الکمال [214/2۔ 217]
⟐ اسماعیل بن عیاش مدلس ہیں۔ [طبقات المدلسین 3/68، المرتبۃ الثالثہ] اور یہ روایت عن سے ہے۔
↰ اس ضعیف سند سے استدلال مردود ہے۔ شیخ البانی رحمه الله کو بڑا وہم ہوا ہے، انہوں نے بغیر کسی دلیل کے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «انا لله وانا اليه راجعون»

صحیح سند سے ثابت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [جزء رفع الیدین للبخاری: 22 و سندہ صحیح]
اور یہ بھی صحیح ثابت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز، رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور دو رکعتوں سے اٹھ کر رفع یدین کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه ج 1ص 344، 345 ح 694، 695 وسنده صحيح، وقال الحافظ ابن حجر فى كتابه موافقة الخبر الخبر 409، 410/1 هذا حديث صحيح]
↰ ابن جریح نے سماع کی تصریح کر دی ہے اور یحییٰ بن ایوب الغافقی پر جرح مردود ہے، وہ جمہور کے نزدیک ثقہ وصدوق راوی ہیں اور عثمان بن الحکم نے ان کی متابعت کر دی ہے۔ اس روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ «ولا يفعله حين يرفع رأسه من السجود» یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 18، حدیث/صفحہ نمبر: 31   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 738  
´نماز شروع کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے، اور جب رکوع کرتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب رکوع سے سجدے میں جانے کے لیے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب دو رکعت پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو بھی اسی طرح کرتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 738]
738۔ اردو حاشیہ:
احادیث 735، 738 سب سنداً ضعیف ہیں۔ تاہم اس حدیث میں تیسری رکعت کے لیے بھی اٹھتے ہوئے رفع الیدین کا ثبوت ہے، جو صحیح ہے، علاوہ ازیں یہ دیگر صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 738   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 836  
´تکبیر پوری کہنے کا بیان۔`
زہری کہتے ہیں: مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ نے خبر دی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرض ہو یا نفل ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے خواہ فرض ہو یا نفل، نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت تکبیر «الله اكبر» (تکبیر تحریمہ) کہتے، پھر رکوع کرتے وقت تکبیر «الله اكبر» کہتے، پھر «سمع الله لمن حمده» کہتے، اس کے بعد سجدہ کرنے سے پہلے «ربنا ولك الحمد» کہتے، پھر جب سجدے میں جانے لگتے تو «الله اكبر» کہتے، پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو «الله اكبر» کہتے، پھر جب (دوسرے) سجدے میں جاتے تو «الله اكبر» کہتے، جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو «الله اكبر» کہتے، پھر جب دو رکعت پڑھ کر اٹھتے تو «الله اكبر» کہتے، ایسے ہی ہر رکعت میں نماز سے فارغ ہونے تک (تکبیر) کہتے ۱؎، پھر جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو کہتے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم میں سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے، اسی طرح آپ کی نماز تھی یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس کے آخری ٹکڑے یعنی «إن كانت هذه لصلاته حتى فارق الدنيا» کو مالک اور زبیدی وغیرہ زہری کے واسطہ سے علی بن حسین سے مرسلاً نقل کرتے ہیں اور عبدالاعلی نے بواسطہ معمر زہری کے دونوں شیوخ ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے ذکر کرنے میں شعیب بن ابی حمزہ کی موافقت کی ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 836]
836۔ اردو حاشیہ:
ہر دو رکعت میں گیارہ اور چار رکعتوں میں بائیس تکبیریں ہوتی ہیں۔ تکبیر تحریمہ اور تیسری رکعت کی تکبیر کے علاوہ ہر رکعت میں پانچ تکبیریں کہی جاتی ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ نے سب ہی کو واجب کہا ہے۔ جبکہ دوسرے حضرات صرف تکبیر تحریمہ کو واجب کہتے ہیں اور باقی کو سنت موکدہ قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے کسی موقع پر بھی ان کا ترک ثابت نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 836   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 884  
´دونوں ہاتھوں کو بڑھا کر اٹھانے کا بیان۔`
سعید بن سمعان کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ قبیلہ زریق کی مسجد میں آئے، اور کہنے لگے: تین کام ایسے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے ۱؎، آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ بڑھا کر اٹھاتے تھے، اور تھوڑی دیر چپ رہتے تھے ۲؎ اور جب سجدہ کرتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 884]
884۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث کو حدیث مسی، الصلاۃ کہتے ہیں، یعنی وہ حدیث جس میں غلط نماز پڑھنے والے کا ذکر ہے۔
➋ علماء کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرائض بتلائے ہیں۔ ان کے بغیر نماز گویا ہے ہی نہیں۔
➌ اس حدیث کی رو سے تکبیر تحریمہ، قراءت، رکوع اور اس میں اطمینان، سر اٹھانا اور سیدھا کھڑا ہونا، سجدہ اور اس میں اطمینان، سر اٹھانا اور اطمینان سے بیٹھنا فرائض میں شامل ہیں مگر احناف حضرات اطمینان کو تو نماز میں کسی بھی جگہ ضروری نہیں سمجھتے کیونکہ لغت کے لحاظ سے رکوع اور سجدے کے معنی میں اطمینان داخل نہیں مگر سوچنا چاہیے کہ کیا حدیث کی حیثیت لغت سے بھی کم ہے کہ اگر لغت میں لکھا ہو پھر تو فرض اور صحیح حدیث میں آجائے تو مستحب؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح لفظ ہیں: «فإنك لم تُصلِّ» تحقیق تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اور اس شخص کو تین دفعہ نماز لوٹانے کے لیے کہا گیا۔ چلیں واجب ہی کہہ لیتے۔ افسوس! اسی طرح قومے اور جلسے کو بھی واجب نہیں سمجھتے کہ یہ مقصود نہیں۔ شاید اسی لیے رائے کی مذمت کی گئی ہے۔
جس قدر تو قرآن پڑھ سکے، پڑھ۔ اسی حدیث کے دوسرے طرق میں سورت فاتحہ کی صراحت ہے۔ گویا یہ پڑھنا سورۂ فاتحہ سے زائد ہے یا اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہی ہے کیونکہ سورۂ فاتحہ ہر قرآن خواں کو لازماً آتی ہے۔ اسی سے قرآن کی ابتدا ہوتی ہے۔
➎ نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی چیز رہ جائے یا مسنون طریقے کے مطابق نہ ہو تو نماز باطل ہوجائے گی اور نماز لوٹانا ضروری ہو گا۔
➏ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اس میں نرمی اور خوش اسلوبی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی مسئلے کی وضاحت اور تعلیم میں سختی نہیں کرنی چاہیے۔
➐ جب دو آدمیوں میں جدائی ہو، اگرچہ وہ چند لمحوں کی ہو، دوبارہ ملنے پر سلام کہنا اور اس کا جواب دینا مشروع ہے۔
➑ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر اور قراءت صرف عربی ہی میں کی جائے جیسا کہ دیگر صحیح روایات میں اللہ اکبر کی صراحت بھی ہے۔ جو لوگ فارسی یا کسی دوسری زبان میں تکبیر کہنے اور قراءت کرنے کی اجازت دیتے ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ «والله أعلم»
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 884   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 885  
´تکبیر تحریمہ کی فرضیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، اور ایک اور شخص داخل ہوا، اس نے آ کر نماز پڑھی، پھر وہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا، اور فرمایا: واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی تو وہ لوٹ گئے اور جا کر پھر سے نماز پڑھی جس طرح پہلی بار پڑھی تھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو سلام کئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (پھر) فرمایا: وعلیک السلام، واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، ایسا انہوں نے تین مرتبہ کیا، پھر عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا ہے، میں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے (نماز پڑھنا) سکھا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوں تو اللہ اکبر کہیں ۱؎ پھر قرآن میں سے جو آسان ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع کی حالت میں آپ کو اطمینان ہو جائے، پھر رکوع سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ کر لو، پھر سجدہ سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ پھر اسی طرح اپنی پوری نماز میں کرو ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 885]
885 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث کو حدیث مسی، الصلاۃ کہتے ہیں، یعنی وہ حدیث جس میں غلط نماز پڑھنے والے کا ذکر ہے۔
➋ علماء کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرائض بتلائے ہیں۔ ان کے بغیر نماز گویا ہے ہی نہیں۔
➌ اس حدیث کی رو سے تکبیر تحریمہ، قرأت، رکوع اور اس میں اطمینان، سر اٹھانا اور سیدھا کھڑا ہونا، سجدہ اور اس میں اطمینان، سر اٹھانا اور اطمینان سے بیٹھنا فرائض میں شامل ہیں مگر احناف حضرات اطمینان کو تو نماز میں کسی بھی جگہ ضروری نہیں سمجھتے کیونکہ لغت کے لحاظ سے رکوع اور سجدے کے معنی میں اطمینان داخل نہیں مگر سوچنا چاہیے کہ کیا حدیث کی حیثیت لغت سے بھی کم ہے کہ اگر لغت میں لکھا ہو پھر تو فرض اور صحیح حدیث میں آجائے تو مستحب؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح لفظ ہیں: «فإنك لم تُصلِّ» تحقیق تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اور اس شخص کو تین دفعہ نماز لوٹانے کے لیے کہا گیا۔ چلیں واجب ہی کہہ لیتے۔ افسوس! اسی طرح قومے اور جلسے کو بھی واجب نہیں سمجھتے کہ یہ مقصود نہیں۔ شاید اسی لیے رائے کی مذمت کی گئی ہے۔
جس قدر تو قرآن پڑھ سکے، پڑھ۔ اسی حدیث کے دوسرے طرق میں سورت فاتحہ کی صراحت ہے۔ گویا یہ پڑھنا سورۂ فاتحہ سے زائد ہے یا اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہی ہے کیونکہ سورۂ فاتحہ ہر قرآن خواں کو لازماً آتی ہے۔ اسی سے قرآن کی ابتدا ہوتی ہے۔
➎ نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی چیز رہ جائے یا مسنون طریقے کے مطابق نہ ہو تو نماز باطل ہو جائے گی اور نماز لوٹانا ضروری ہو گا۔
➏ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اس میں نرمی اور خوش اسلوبی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی مسئلے کی وضاحت اور تعلیم میں سختی نہیں کرنی چاہیے۔
➐ جب دو آدمیوں میں جدائی ہو، اگرچہ وہ چند لمحوں کی ہو، دوبارہ ملنے پر سلام کہنا اور اس کا جواب دینا مشروع ہے۔
➑ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر اور قرأت صرف عربی ہی میں کی جائے جیسا کہ دیگر صحیح روایات میں اللہ اکبر کی صراحت بھی ہے۔ جو لوگ فارسی یا کسی دوسری زبان میں تکبیر کہنے اور قرأت کرنے کی اجازت دیتے ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 885   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 906  
´(نماز میں) «‏‏‏‏بسم اللہ الرحمن الرحیم» ‏‏‏‏ پڑھنے کا بیان۔`
نعیم المجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، تو انہوں نے «بسم اللہ الرحمن الرحيم» کہا، پھر سورۃ فاتحہ پڑھی، اور جب «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» پر پہنچے آمین کہی، لوگوں نے بھی آمین کہی ۱؎، اور جب جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب دوسری رکعت میں بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوئے تو اللہ اکبر کہا، اور جب سلام پھیرا تو کہا: اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم میں نماز کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 906]
906 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت سے معلوم ہوا کہ «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ» جہری نماز میں اونچی پڑھی جائے گی مگر ضروری نہیں کیونکہ آہستہ پڑھنے کی روایتیں زیادہ اور صحت کے اعتبار سے قوی ہیں۔ اگرچہ یہ روایت بھی صحیح ہے، لیکن کبھی کبھی «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ» اونچی آواز میں پڑھنے پر محمول کی جائے گی اور معمول آہستہ پڑھنے ہی کا ہو گا تاکہ سب روایات پر ان کی حیثیت کے مطابق عمل ہو جائے۔
➋ مزید معلوم ہوا کہ (جہری نماز میں) امام اور مقتدیوں کا بلند آواز سے آمین کہنا سنت ہے اور صحابہ کے دور مبارک میں اسی پر عمل تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 906   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1024  
´رکوع کے لیے اللہ اکبر کہنے کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ جس وقت مروان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا، وہ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب وہ رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو «سمع اللہ لمن حمده»، «ربنا ولك الحمد» کہتے، پھر جب سجدہ کے لیے جھکتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب تشہد کے بعد دوسری رکعت سے اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، (ہر رکعت میں) اسی طرح کرتے یہاں تک کہ اپنی نماز پوری کر لیتے، (ایک بار) جب انہوں نے اپنی نماز پوری کر لی اور سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہت رکھتا ہوں۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1024]
1024۔ اردو حاشیہ:
➊ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے آخر دور میں نئے لوگوں نے بعض سنتوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا، جن میں سے ایک سنت تکبیرات انتقال تھی۔ لوگوں نے نماز میں تکبیرات کہنا چھوڑ دی تھیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اس طرف توجہ دلائی۔
➋ اگر کوئی سنت متروک ہو رہی ہو تو حاکم وقت کو اسے زندہ کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1024   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1157  
´اٹھنے کے لیے اللہ اکبر کہنے کا بیان۔`
ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ان دونوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، جب انہوں نے رکوع کیا تو اللہ اکبر کہا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو «سمع اللہ لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا، پھر سجدہ کیا تو «اللہ اکبر» کہا، اور سجدہ سے اپنا سر اٹھایا تو «اللہ اکبر» کہا، پھر جس وقت رکعت پوری کر کے کھڑے ہوئے تو «اللہ اکبر» کہا، پھر کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نماز میں ازروئے مشابہت تم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ قریب ہوں، برابر آپ کی نماز ایسے رہی یہاں تک کہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے، یہ الفاظ «سّوار» کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1157]
1157۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں۔ نصر بن علی اور سوار بن عبداللہ۔ روایت میں بیان کردہ الفاظ حضرت سوار کے ہیں اگرچہ حضرت نصر کے الفاظ بھی معناً ان سے مختلف نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1157   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1060  
´نماز کو مکمل طور پر ادا کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے، اس نے آ کر آپ کو سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی، وہ واپس گیا اور اس نے پھر سے نماز پڑھی، پھر آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ پھر سے نماز پڑھو، تم نے ابھی بھی نماز نہیں پڑھی، آخر تیسری مرتبہ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1060]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نماز کی صحت کےلئے وضو شرط ہے۔
اس لئے وضو توجہ اوراحتیاط سے کرنا چاہیے۔
تاکہ ا س میں کوئی نقص نہ رہ جائے۔

(2)
نماز کے لئے قبلہ رخ ہونا شرط ہے البتہ نفلی نماز سواری پر ادا کرتے وقت سواری کا رخ جدھر بھی ہو نماز جاری رکھی جائے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، باب صلاۃ التطوع علی الدواب وحیثما توجھت، حدیث: 1093۔
وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب جواز صلاۃ النافلة علی الدابة فی السفر حیث توجھت، حدیث: 700)

 البتہ یہ ضروری ہے کہ نمازشروع کرتے وقت سواری کا رخ قبلے کی طرف ہو۔
جیسا کہ سنن ابو داؤد کی روایت میں صراحت ہے۔ (سنن ابی داؤد، صلاۃ السفر، باب التطوع علی الراحلة والوتر، حدیث: 1225)

(3)
نماز کی ابتداء تکبیر سے ہوتی ہے۔
جیسے کہ سنن ابن ماجہ کی حدیث 275 میں ذکر ہوا۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
نماز میں پابندیاں لگانے والی ہر چیز تکبیر ہے۔
اور پابندیاں ختم کرنے والی چیز سلام ہے۔

(4)
  قرآن میں سے جو آسان ہو۔
اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔
کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
یا اس سے مراد سورہ فاتحہ کے بعد کی تلاوت ہے۔
کہ اس میں کم زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔
سورہ فاتحہ کا وجوب دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
ارشاد نبوی ہے۔
 (لَاصَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَاْ بِفَاتِحَة ِالْكِتَابِ) (صحيح البخاري، الأذان، باب وجوب القراءۃ للإمام والمأموم فی الصلوات کلھا۔
۔
۔
، حدیث: 756 وصحیح مسلم، الصلاۃ، باب وجوب قراءۃ ا لفاتحة فی کل ر کعة۔
۔
۔
، حدیث: 394)

 جس شخص نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔
علاوہ ازیں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
جب میں بلند آواز سے قراءت کروں توسورۃ فاتحہ کے سواقرآن میں سے کچھ نہ پڑھو (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب من ترک القراءۃ فی صلاته بفاتحة الکتاب، حدیث: 823)

(5)
رکوع اور سجدے کے دیگر مسائل گزشتہ ابواب میں بیان ہوچکے ہیں۔

(6)
اس حدیث میں اہم مسئلہ جسے پوری تاکید سے واضح کیاگیا ہے۔
وہ یہ ہے کہ نماز کے ارکان پورے اطمینان سے ادا کرنے ضروری ہیں۔
جلدی جلدی پڑھی ہوئی نماز اللہ کےہاں قبول نہیں۔
کیونکہ نماز کا اصل مقصد ہی اللہ کا ذکر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾  (طٰهٰ: 14)
 میری یاد کےلئے نماز قائم کیجئے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1060   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 240  
´اللہ اکبر کہتے وقت انگلیاں کھلی رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح اٹھاتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 240]
اردو حاشہ:
1؎:
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد (ابو حاتم رازی) کہتے ہیں کہ یحیی کو اس میں وہم ہوا ہے،
وہ ((إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ اِلَيْهِ مَدًّا)) کہنا چاہ رہے تھے لیکن ان سے چوک ہو گئی انہوں نے غلطی سے ((إذَا كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ نَشَرَ أَصَابِعَه)) کی روایت کردی،
ابن ابی ذئب کے تلامذہ میں سے ثقات نے ((إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ مَدًّا)) ہی کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 240   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 885  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے، تو ایک آدمی داخل ہوا اور نماز پڑھی، پھر آ کر آپﷺ کو سلام عرض کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جا کر نماز پڑھ، کیونکہ تیری نماز نہیں ہوئی، اس آدمی نے واپس جا کر نماز پڑھی جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر سلام عرض کیا تو آپﷺ نے فرمایا: وَعَلَیكَ السَّلام، پھر فرمایا: واپس جا کر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:885]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
آپﷺ نے نماز میں کوتاہی کرنے والے کو فرمایا قرآن کا جو حصہ تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لو۔
اور سورہ فاتحہ قرآن مجید کا سب سے آسان حصہ ہے جو عام طور پر نمازی کو یاد ہوتا ہے،
اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کے تحت تصریح کی ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی جگہ:
(ثُمَّ اقْرََأ بِأُمِّ الْقُرْآن ثُمَّ اقْرَأ بِمَا شِئْتَ) (پھر ام القرآن پڑھ پھر جو چاہے پڑھ)
کے الفاظ بیان کیے ہیں جو اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ مَا تَیَسَّرَ سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے تمام ارکان ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ ادا کرنا لازم ہے اس کو تعدیل ارکان کہتے ہیں جو تمام آئمہ کے نزدیک فرض ہے،
امام یوسف بھی اس کے قائل ہیں۔
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تعدیل ارکان واجب ہے جو فرض سے کم درجہ ہے لیکن یہ بات حدیث کے خلاف ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو فرض یا واجب کا اصطلاحی نام جو بھی دیں وہ ایسا لازم کہ اس کی مخالفت یا اس کو وزن کم کرنے کے لیے ہلکی ا صطلاح گھڑنے سے اس کی حیثیت دین اسلام میں کم نہیں ہو سکتی بلکہ اسی طرح ضروری ہے جس طرح کہ قرآن کا حکم ضروری ہوتا ہے کیونکہ قرآن اور حدیث کا حکم وحی الٰہی ہے۔
(تدبروا وتفهموا) (زاہد)
۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 885   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 757  
757. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے، اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی پھر اس نے نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ آدمی واپس گیا اور اسی طرح نماز پڑھی جیسے اس نے (پہلے) پڑھی تھی۔ پھر اس نے آ کر نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ پھر اسی طرح تین دفعہ ہوا بالآخر اس نے کہا: قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، لہٰذا آپ مجھے بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: اچھا جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں یاد ہو پڑھو۔ اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو، پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو اور سجدے میں اطمینان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:757]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کو ہر باریہ امیدرہی کہ وہ خود درست کرلے گا۔
مگرتین باردیکھ کر آپ نے اسے تعلیم فرمائی۔
ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ تکبیر کہہ پھر سورۃ فاتحہ پڑھ۔
امام احمد وابن حبان کی روایات میں یوں ہے کہ جو توچاہے وہ پڑھ۔
یعنی قرآن میں سے کوئی سورۃ۔
یہیں سے ترجمہ با ب نکلا کہ آپ نے اس کو قرات کا حکم فرمایا۔
قرآن مجید میں سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ یاد ہونے والی سورۃ فاتحہ ہے۔
اسی کے پڑھنے کا آپ نے حکم فرمایا اورآیت قرآن ﴿فاقرءوا ماتیسر منه﴾ (المزمل: 20)
میں بھی سورۃ فاتحہ ہی کا پڑھنا مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 757   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 789  
789. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، جب رکوع کرتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر جب رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے۔ اس کے بعد بحالت قومہ ربنا لك الحمد کہتے۔۔۔ راوی حدیث عبداللہ بن صالح نے اپنے استاد لیث سے، ربنا ولك الحمد کے الفاظ نقل کیے ہیں۔۔ پھر جب (سجدے کے لیے) جھکتے تو تکبیر کہتے۔ اس کے بعد جب (سجدے سے) سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر دوسرے سجدے کے لیے اللہ اکبر کہتے اور آخر میں جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر اپنی تمام نماز میں ایسا ہی کرتے تاآنکہ اسے پورا کر لیتے۔ علاوہ ازیں جب تشہد بیٹھنے کے بعد دو رکعات سے فراغت کے بعد اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:789]
حدیث حاشیہ:
چار رکعت نماز میں کل بائیس تکبیریں ہوتی ہیں ہر رکعت میں پانچ تکبیریں، ایک تکبیر تحریمہ دوسری پہلے تشہد کے بعد اٹھتے وقت سب بائیس ہوئی۔
اور تین رکعت نماز میں سترہ اور دو رکعت میں گیارہ ہوتی ہیں اور پانچوں نمازوں میں چورانوے تکبیریں ہوتی ہیں۔
موسیٰ بن اسماعیل کی سند کے بیان سے حضرت امام کی غرض یہ ہے کہ قتادہ سے دو شخصوں نے اس کو روایت کیا ہے۔
ہمام اور ابان نے اور ہمام کی روایت اصول میں امام بخاری ؒ کی شرط پر ہے اور ابان کی روایت متابعات میں۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قتادہ کا سماع عکرمہ سے معلوم ہو جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 789   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 793  
793. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لائے تو ایک اور آدمی بھی مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے نماز پڑھی اس کے بعد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے سلام عرض کیا۔ نبی ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جا، نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے پھر نماز پڑھی، واپس آیا اور نبی ﷺ کو سلام عرض کیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: جا، نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ بہرحال ایسا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا۔ بالآخر اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا۔ آپ مجھے نماز کی تعلیم دیں، (اس کے بعد) آپ نے فرمایا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو، پھر قرآن سے جو میسر ہو اسے پڑھو، پھر رکوع کرو۔ جب اطمینان سے رکوع کر لو تو سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ اس کے بعد سجدہ کرو۔ جب اطمینان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:793]
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث کو بروایت رفاعہ بن رافع ابن ابی شیبہ نے یوں روایت کیا کہ اس شخص نے رکوع اور سجدہ پورے طور پر ادا نہیں کیا تھا۔
اسی لیے آنحضرت ﷺ نے اسے نماز لوٹانے کا حکم فرمایا۔
یہی ترجمہ باب ہے۔
ثابت ہوا کہ ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے ہر رکن کا ادا کرنا فرض ہے۔
اس روایت بخاری میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پڑھ جو تجھے قرآن سے آسان ہو۔
مگر رفاعہ بن رافع کی روایت ابن ابی شیبہ میں صاف یوں مذکو رہے۔
ثم اقرأ بأم القرآن وما شاءاللہ۔
یعنی پہلے سورۃ فاتحہ پڑھ پھر جو آسان ہو قرآن کی تلاوت کر۔
اس تفصیل کے بعد اس روایت سے سورۃ فاتحہ کی عدم رکنیت پر دلیل پکڑنے والا یا تو تفصیلی روایات سے نا واقف ہے یا پھر تعصب کا شکار ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 793   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6251  
6251. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس نے نماز پڑھی پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: وعلیک السلام، واپس جا اور دوبارہ نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور نماز پڑھ کر پھر حاضر خدمت ہوکر سلام کہا تو آپ نے فرمایا: وعلیک السلام واپس جا پھر نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے دوسری مرتبہ یا اس کے بعد عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے (نماز) سکھا دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو پہلے اچھی طرح وضو کر، پھر قبلہ رو ہو کر اللہ اکبر کہہ اس کے بعد جو قرآن تجھے میسر ہو اسے پڑھ پھر رکوع کر حتیٰ کہ پورے اطمینان سے رکوع کرنے کے بعد سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہو جا پھر سجدہ کر حتیٰ کہ پوری طرح سجدہ کر پھر سر اٹھا حتیٰ کہ اطمنیان سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6251]
حدیث حاشیہ:
تو اس میں جلسئہ استراحت کا ذکر نہیں۔
اس شخص کا نام خلاد بن رافع تھا یہ نماز جلدی جلدی ادا کر رہا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز آہستہ سے پڑھنے کی تعلیم فرمائی۔
حدیث میں لفظ وعلیک السلام مذکور ہے۔
باب سے یہی مطابقت ہے۔
ابو اسامہ راوی کے اثر کو خود حضرت امام نے کتاب الایمان والنذر میں وصل کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6251   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6667  
6667. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوا جبکہ رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ شخص آیا اور اپ کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا: لوٹ جا، دوبارہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا نماز پڑھ کر دوبارہ آیا اور آپ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا: واپس جا اور نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ آخر تیسری مرتبہ اس نے کہا: آپ مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیں۔ آپ نے فرمایا: جب تم نماز پڑھنے كا اراده كرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو، قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہو اور قرآن کا جو حصہ آسانی سے پڑھ سکتے ہو اسے تلاوت کرو، اس کے بعد اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ، جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر اطمینان سے سجدہ کرو،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6667]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز در حقیقت وہی صحیح ہے جورکوع، سجدہ، قیام، جلسہ، قومہ وغیرہ ارکان کو ٹھیک طور پرادا کر کے پڑھی جائے جو نمازی محض مرغ کی ٹھونگ لگا لیتے ہیں ان کو نماز کا چور کہا گیا ہےاور ایسے نمازیوں کی نماز ان کے منہ پر ماری جاتی ہے بلکہ وہ نماز اس نمازی کےحق میں بددعا کرتی ہے۔
حدیث اور باب میں مطابقت یہ ہے کہ بھول چوک معاف تو ہے مگر نماز میں اگر کوئی شخص بھول چوک کو مستقل معمول بنا لے تو ایسی بھوک چوک معافی کے قابل نہیں ہے۔
خاص طو رپر نماز میں ایسی بھول چوک بہت زیادہ خطرناک ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6667   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 785  
785. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تو جب بھی جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے تھے اور جب سلام پھیرتے تو فرماتے کہ تمہاری نسبت میری نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:785]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو رکوع اور سجدہ وغیرہ میں جاتے ہوئے تکبیر نہیں کہتے۔
بعض شاہان بنی امیہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
باب کا ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے کہ تکبیر کو رکوع میں جا کر پورا کرنا، مگر بہتر ترجمہ وہی ہے جو اوپر ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 785   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:757  
757. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے، اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی پھر اس نے نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ آدمی واپس گیا اور اسی طرح نماز پڑھی جیسے اس نے (پہلے) پڑھی تھی۔ پھر اس نے آ کر نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ پھر اسی طرح تین دفعہ ہوا بالآخر اس نے کہا: قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، لہٰذا آپ مجھے بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: اچھا جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں یاد ہو پڑھو۔ اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو، پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو اور سجدے میں اطمینان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:757]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابو داود کی روایت میں ''مَا تَيَسَّرَ'' کی تفسیر بیان ہوئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
تکبیر تحریمہ کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھ۔
ابو داود کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر تجھے قرآن یاد ہے تو اس سے کچھ پڑھ، اگر قرآن یاد نہیں تو الحمدلله، الله أكبر اور لا إله إلا الله پڑھتا رہ۔
جب حدیث کے الفاظ کو جمع کیا جاتا ہے تو اس طرح ترتیب بنتی ہے کہ پہلا درجہ سورۂ فاتحہ کا ہے۔
اگر یہ سورت یاد نہیں تو قرآن کریم کی کوئی بھی سورت یا آیت پڑھی جاسکتی ہے۔
اگر بالکل قرآن کریم سے ناواقف ہے تو اللہ کا ذکر اس کے قائم مقام ہوسکتا ہے۔
(فتح الباري: 315/2)
حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:
یا رسول اللہ! میں قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہیں کرسکتا، مجھے قراءت کی جگہ کافی ہونے والی کوئی چیز بتادیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لو یہ کلمات کہا کرو:
(سبحان الله، والحمدلله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم) (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 832) (2)
امام بخاری ؒ نے جو حدیث پیش کی ہے یہ حدیث مسيئ الصلاة کے نام سے مشہور ہے۔
اس پر ابن حبان نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
نمازی کے لیے ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
نماز میں فاتحہ پڑھنے کی اہمیت اس قدر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاتحہ کو نماز قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور بندہ جو سوال کرے گا، اسے ضرور ملے گا،چنانچہ جب بندہ کہتا ہے:
﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
میرے بندے نے میری تعریف کی ہے۔
اور جب بندہ کہتا ہے:
﴿الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔
اور جب بندہ کہتا ہے:
﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
میرے بندے نے اپنے معاملات میرے سپرد کردیے ہیں۔
اور جب بندہ کہتا ہے:
﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے۔
پھر جب بندہ کہتا ہے:
﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ تو اللہ فرماتا ہے:
یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں اسے ضرور دوں گا۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 878 (395)
، ومسندأحمد: 2/241)

آخر میں ہم فاتحہ خلف الامام کے قائلین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کاموقف پیش کرتے ہیں:
٭کسی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے سوال کیا کہ میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ آپ نے فرمایا:
ہاں۔
سائل نے عرض کیا:
اگرچہ آپ قراءت کر رہے ہوں؟فرمایا:
ہاں، اگرچہ میں قراءت کررہاہوں۔
(المستدرك للحاکم: 1/239)
٭ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھو۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 1/375)
٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فاتحہ خلف الامام کے متعلق فرمایا کہ اسے آہستہ اپنے جی میں پڑھو۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 878 (395)
٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فاتحہ خلف الامام کے متعلق فرمایا کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھو۔
(جزءالقراءة، حدیث: 57)
٭حضرت انس ؓ بھی امام کے پیچھے قراءت فاتحہ کا حکم دیتے تھے۔
(کتاب القراءت للبیھقی،حدیث: 231)
٭حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی قراءت فاتحہ خلف الامام کے قائل اور فاعل تھے۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 2/165)
٭حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بھی یہی موقف تھا۔
حضرت مجاہد انھیں امام کے پیچھے قراءت کرتے سنا کرتے تھے۔
(جزءالقراءۃ، حدیث: 60)
٭ حضرت ابی بن کعب ؓ بھی امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائم وفاعل تھے۔
(جزءالقراءۃ،حدیث: 52)
نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی مشروعیت اس طرح بھی ثابت ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ﴿٨٧﴾ )
اور ہم نے آپ کو سات بار بار دہرائی جانے والی آیات اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔
" (الحجر87: 15)
رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود وضاحت فرمائی ہے کہ سورۂ فاتحہ ہی سات باربار دہرائی جانے والی آیات ہیں۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4704)
مفسر قرآن حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ نماز فرض ہو نفل ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ دہرائی جاتی ہے۔
(تفسیرالطبري: 14/39)
مذکورہ حدیث وآثار اور تعامل صحابہ کے مقابلے میں فقہائے عراق کا رد عمل بھی ملاحظہ فرمائیں:
شیخ الحنفیہ نعمان الوقت شیخ خواہر زادہ فرماتے ہیں کہ اگر مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے تو اس کی نماز فاسد ہوگی۔
معروف حنفی بزرگ عبداللہ البلخی فرماتے ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے تو اس کے منہ میں مٹی ڈالی جائے بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ اس کے دانت توڑ دیے جائیں۔
خلاصۂ کیدانی کی مصنف لکھتے ہیں کہ قراءت خلف الامام حرام ہے۔
مذکورہ تمام حوالہ جات مولانا عبدالحی لکھنوی کی کتاب امام الکلام سے ماخوذ ہیں۔
در مختار میں منقول ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے والا فاسق اور اس کی نماز باطل ہے۔
(در مختار: 1/544)
مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ نے صاف صاف اظہار حق کیا ہے، فرماتے ہیں:
کسی مرفوع حدیث میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت نہیں ہے اور مخالفین جو بھی مرفوع احادیث پیش کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں یاوہ بالکل بے اصل ہیں۔
(التعلیق الممجد: 1/101)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 757   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:785  
785. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تو جب بھی جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے تھے اور جب سلام پھیرتے تو فرماتے کہ تمہاری نسبت میری نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:785]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں تمام انتقالات نماز کے لیے تکبیر کا ذکر ہے لیکن رکوع سے اٹھتے وقت تکبیر نہیں بلکہ تسمیع مشروع ہے جس کی تفصیل آئندہ حدیث: 789 میں آ رہی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 785   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:789  
789. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، جب رکوع کرتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر جب رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے۔ اس کے بعد بحالت قومہ ربنا لك الحمد کہتے۔۔۔ راوی حدیث عبداللہ بن صالح نے اپنے استاد لیث سے، ربنا ولك الحمد کے الفاظ نقل کیے ہیں۔۔ پھر جب (سجدے کے لیے) جھکتے تو تکبیر کہتے۔ اس کے بعد جب (سجدے سے) سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر دوسرے سجدے کے لیے اللہ اکبر کہتے اور آخر میں جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو بھی تکبیر کہتے۔ پھر اپنی تمام نماز میں ایسا ہی کرتے تاآنکہ اسے پورا کر لیتے۔ علاوہ ازیں جب تشہد بیٹھنے کے بعد دو رکعات سے فراغت کے بعد اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:789]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں تکبیرات انتقال کی تفصیل بیان ہوئی ہے کہ ہر رکعت میں تکبیر تحریمہ اور دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھنے کے علاوہ پانچ تکبیرات ہیں، اسی طرح چار رکعات میں کل بائیس تکبیرات ہیں، جن کا ذکر حدیثِ سابق میں تھا۔
اس سے پہلے حدیث ابو ہریرہ ؓ (رقم: 785)
میں ہر جھکنے اور اٹھنے میں تکبیر کہنے کا ذکر ہے۔
یہ عموم غیر مقصود ہے کیونکہ اس حدیث میں امام بخاری ؒ کا مقصد جھکتے وقت تکبیر ترک کر دینے کی تردید تھا جیسا کہ بنو امیہ کی عادت تھی، نیز وہاں تسمیع اور تحمید کی نفی مقصود نہ تھی۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان ؓ نے مسجد میں ایک مقصورہ بنا رکھا تھا جس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے تھے، پھر بڑھاپے کی وجہ سے آواز میں بھی کچھ ضعف آ چکا تھا، آپ کی تکبیرات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے مکبرین تعینات تھے۔
بنو امیہ نے خیال کیا کہ شاید حضرت عثمان ؓ نے تکبیرات کو ترک کر دیا ہے، اس لیے انہوں نے بھی تکبیرات کا اہتمام چھوڑ دیا۔
اس موقف کی تردید کے لیے محدثین کرام نے تکبیرات انتقال کے متعلق عنوانات قائم کیے اور احادیث پیش کی ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 789   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:793  
793. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لائے تو ایک اور آدمی بھی مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے نماز پڑھی اس کے بعد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے سلام عرض کیا۔ نبی ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جا، نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے پھر نماز پڑھی، واپس آیا اور نبی ﷺ کو سلام عرض کیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: جا، نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ بہرحال ایسا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا۔ بالآخر اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا۔ آپ مجھے نماز کی تعلیم دیں، (اس کے بعد) آپ نے فرمایا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو، پھر قرآن سے جو میسر ہو اسے پڑھو، پھر رکوع کرو۔ جب اطمینان سے رکوع کر لو تو سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ اس کے بعد سجدہ کرو۔ جب اطمینان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:793]
حدیث حاشیہ:
(1)
محدثین نے اس حدیث کو "حديث مُسيئ الصلاة" کا نام دیا ہے۔
اور اس سے بکثرت مسائل کا استنباط کیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں تعدیل ارکان فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو بار بار نماز پڑھنے کا حکم دیا۔
اس کا یہی قصور تھا کہ وہ رکوع و سجود ٹھیک طور پر ادا نہیں کرتا تھا۔
اس سے پہلے حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ایک حدیث گزر چکی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کر رہا تھا تو فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔
اگر تجھے اسی حالت میں موت آ گئی تو دین فطرت کے خلاف مرے گا جس دین پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور فرمایا ہے۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 78/2(طبع مکتبة الرشد) (2)
اس حدیث میں ان امور کی نشاندہی نہیں کی گئی جن میں کوتاہی کی وجہ سے اسے دوبارہ سہ بارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا لیکن اس واقعے کو ابن ابی شیبہ نے حضرت رفاعہ بن رافع کی روایت سے بیان کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ہلکی سی نماز پڑھی اور اس میں رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 791)
امام بخاری ؒ نے عنوان کے ذریعے سے اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
سنن نسائی میں ہے کہ اس نے دو رکعت ادا کی تھیں۔
ممکن ہے کہ تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھی ہوں۔
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
پہلے سورۂ فاتحہ پڑھ، پھر قرآن سے جو تجھے میسر ہو اسے تلاوت کر۔
(مسند أحمد: 340/4)
اس تفصلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
(فتح الباري: 2/364،360)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 793   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6667  
6667. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوا جبکہ رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد وہ شخص آیا اور اپ کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا: لوٹ جا، دوبارہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا نماز پڑھ کر دوبارہ آیا اور آپ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا: واپس جا اور نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ آخر تیسری مرتبہ اس نے کہا: آپ مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیں۔ آپ نے فرمایا: جب تم نماز پڑھنے كا اراده كرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو، قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہو اور قرآن کا جو حصہ آسانی سے پڑھ سکتے ہو اسے تلاوت کرو، اس کے بعد اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ، جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر اطمینان سے سجدہ کرو،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6667]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز در حقیقت وہی درست ہے جس میں سجدہ، رکوع، قیام، جلسہ، اور قومے وغیرہ کو ٹھیک طور پر ادا کیا جائے۔
نماز میں اگرچہ بھول چوک معاف ہے لیکن اگر کوئی شخص بھول چوک کو مستقل معمول بنا لے تو ایسی بھول قابل معافی نہیں ہے۔
قسم کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر کوئی بھول کر اسے توڑ دیتا ہے تو قابل معافی ہے لیکن اگر کوئی اسے اپنا معمول بنا لیتا ہے تو اسے معافی نہیں دینی چاہیے۔
مسیئ الصلاۃ نے بار بار نماز جلدی جلدی ادا کی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تنبیہ فرمائی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6667