سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
4. باب فِي وَقْتِ صَلاَةِ الظُّهْرِ
باب: ظہر کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 399
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنْتُ أُصَلِّي الظُّهْرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَآخُذُ قَبْضَةً مِنَ الْحَصَى لِتَبْرُدَ فِي كَفِّي أَضَعُهَا لِجَبْهَتِي أَسْجُدُ عَلَيْهَا لِشِدَّةِ الْحَرِّ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر پڑھتا تو ایک مٹھی کنکری اٹھا لیتا تاکہ وہ میری مٹھی میں ٹھنڈی ہو جائے، میں اسے گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنی پیشانی کے نیچے رکھ کر اس پر سجدہ کرتا تھا۔
تخریج الحدیث: «وقد تفرد بہ أبو داود: (تحفة الأشراف: 2252)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/التطبیق 33 (1080)، مسند احمد (3/327) (حسن)»
وضاحت: معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں گرمی کے وقت میں ادا فرماتے تھے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کا بھی یہی معمول رہا۔ شرعی ضرورت کے تحت اس قسم کا عمل جیسے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کیا جائز ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (1011)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 399 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 399
399۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں گرمی کے وقت میں ادا فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کا بھی یہی معمول رہا۔
➋ شرعی ضرورت کے تحت اس قسم کا عمل جیسے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کیا، جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 399
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1082
´کنکریوں پر سجدہ کرنے کے لیے انہیں ٹھنڈا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم ظہر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے، میں نماز میں ہی ایک مٹھی کنکری اپنے ہاتھ میں لے لیتا، اسے ٹھنڈا کرتا، پھر اسے دوسرے ہاتھ میں پلٹ دیتا، تو جب سجدہ کرتا تو اسے اپنی پیشانی کے نیچے رکھ لیتا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1082]
1082۔ اردو حاشیہ:
➊ زمین گرم ہوتی تھی۔ براہ راست شدید گرم زمین پر ماتھا رکھنا انتہائی مشکل تھا، لہٰذا نسبتاً ٹھنڈی کنکریاں بچھا کر ان پر ماتھا رکھ لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ بھی لمبا ہوتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے نماز یا نمازی کی مصلحت کے لیے نماز کے علاوہ کوئی فعل کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ فعل کی حد بندی ممکن نہیں ہے، البتہ ایسا مشغول نہ ہو کہ دیکھنے والا اسے نماز سے خارج تصور کرے۔
➋ یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز ظہر جلدی ادا کرنی چاہیے اور اسے اس قدر لیٹ نہیں کرنا چاہیے کہ زمین ٹھنڈی ہونے کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح تو اس کا وقت نکل جائے گا۔ حدیث میں جو ابراد ظہر کا حکم ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ زوال کے بعد تھوڑا بہت انتظار کر لیا جائے تاکہ عین زوال شمس کے وقت دھوپ کی جو شدت اور تمازت ہوتی ہے، اس میں قدرے کمی آ جائے اور سائے ڈھل جائیں تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ مسجد میں آسکیں، ورنہ گرمی اور زمین کی تپش تو عصر کے وقت بھی ختم نہیں ہوتی۔
➌ دوران نماز میں تکلیف اور ضرر کی تلافی کی جا سکتی ہے، اس طرح کے عمل سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
➍ نماز کا اہتمام ضروری ہے اگرچہ اس کے لیے مشقت برداشت کرنی پڑے۔
➎ ان تمام سہولیات و مراعات کو زیر استعمال لایا جا سکتا ہے جو خشوع میں اضافے کا باعث ہوں۔
➏ کسی صحابی کا یہ کہنا کہ ”ہم ایسے کیا کرتے تھے“ مرفوع کے حکم میں ہے۔ لیکن یہاں اس سے بھی قوی قرینہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع نہیں فرمایا۔ اس اعتبار سے اس کا مرفوع ہونا زیادہ قوی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1082