سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
131. باب فِي الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کے دن غسل چھوڑ دینے کی اجازت کا بیان۔
حدیث نمبر: 353
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ جَاءُوا، فَقَالُوا: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَتَرَى الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبًا؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّهُ أَطْهَرُ وَخَيْرٌ لمن اغتسل، ومن لم يغتسل فليس عليه بواجب،" وَسَأُخْبِرُكُمْ كَيْفَ بَدْءُ الْغُسْلِ، كَانَ النَّاسُ مَجْهُودِينَ يَلْبَسُونَ الصُّوفَ وَيَعْمَلُونَ عَلَى ظُهُورِهِمْ وَكَانَ مَسْجِدُهُمْ ضَيِّقًا مُقَارِبَ السَّقْفِ إِنَّمَا هُوَ عَرِيشٌ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ حَارٍّ وَعَرِقَ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الصُّوفِ حَتَّى ثَارَتْ مِنْهُمْ رِيَاحٌ آذَى بِذَلِكَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَلَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الرِّيحَ، قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِذَا كَانَ هَذَا الْيَوْمَ فَاغْتَسِلُوا وَلْيَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَفْضَلَ مَا يَجِدُ مِنْ دُهْنِهِ وَطِيبِهِ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ثُمَّ جَاءَ اللَّهُ بِالْخَيْرِ، وَلَبِسُوا غَيْرَ الصُّوفِ وَكُفُوا الْعَمَلَ وَوُسِّعَ مَسْجِدُهُمْ وَذَهَبَ بَعْضُ الَّذِي كَانَ يُؤْذِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا مِنَ الْعَرَقِ.
عکرمہ کہتے ہیں کہ عراق کے کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے: اے ابن عباس! کیا جمعہ کے روز غسل کو آپ واجب سمجھتے ہیں؟ آپ نے کہا: نہیں، لیکن جو غسل کرے اس کے لیے یہ بہتر اور پاکیزگی کا باعث ہے، اور جو غسل نہ کرے اس پر واجب نہیں ہے، اور میں تم کو بتاتا ہوں کہ غسل کی ابتداء کیسے ہوئی: لوگ پریشان حال تھے، اون پہنا کرتے تھے، اپنی پیٹھوں پر بوجھ ڈھوتے تھے، ان کی مسجد بھی تنگ تھی، اس کی چھت نیچی تھی بس کھجور کی شاخوں کا ایک چھپر تھا، (ایک بار) ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت گرمی کے دن نکلے، لوگوں کو کمبل پہننے کی وجہ سے بےحد پسینہ آیا یہاں تک کہ ان کی بدبو پھیلی اور اس سے ایک دوسرے کو تکلیف ہوئی، تو جب یہ بو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”لوگو! جب یہ دن ہوا کرے تو تم غسل کر لیا کرو، اور اچھے سے اچھا جو تیل اور خوشبو میسر ہو لگایا کرو“، ابن عباس کہتے ہیں: پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو وسعت دی، وہ لوگ اون کے علاوہ کپڑے پہننے لگے، خود محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہی، ان کی مسجد بھی کشادہ ہو گئی، اور پسینے کی بو سے ایک دوسرے کو جو تکلیف ہوتی تھی ختم ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6179)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة 6 (883)، مسند احمد (6/276) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (544)
وصححه ابن خزيمة (1755) والحاكم علٰي شرط البخاري (1/280، 281) ووافقه الذھبي وحسنه الحافظ في الفتح الباري (2/362) وسنده حسن