لیث نے یحییٰ بن سعید سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے ابو زبیر سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حنین سے واپسی کے وقت جعرانہ میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں چاندی تھی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹھی بھر بھر کے لوگوں کو دے رہے تھے۔تو اس نے کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عدل کیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تیرے لئے ویل (ہلاکت یاجہنم) ہو!اگر میں عدل نہیں کررہا تو کون عدل کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کررہا تو میں ناکام ہوگیا اور خسارے میں پڑ گیا۔"اس پر حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کو قتل کردوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (میں اس بات سے) اللہ کی پناہ (مانگتا ہوں)!کہ لوگ ایسی باتیں کریں کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں۔یہ شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا، (یہ لوگ) اس طرح اس (دین اسلام) سے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے (آگے) نکل جاتا ہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حنین سے واپسی کے وقت جعرانہ میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ جبکہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں کچھ چاندی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹھی بھر بھر کر لوگوں کو دے رہے تھے تو اس نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! انصاف کیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تباہ ہو، اگر میں عدل نہیں کر رہا تو عدل کون کرے گا؟ تو ناکام ہوا اور خسارے میں پڑا۔ اگر میں عدل نہیں کر رہا ہوں“ (جس کا متبوع و مقتدی ہی نعوذ باللہ) غیر منصف ہے تو پھر تابع اور مقتدی کی حالت کیا ہوگی تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجیے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ لوگ باتیں کریں کہ میں اپنے ہی ساتھیوں کو مروا دیتا ہوں یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ اس سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے“