سنن دارمي
من كتاب الاستئذان
کتاب الاستئذان کے بارے میں
21. باب لَعْنِ الْمُخَنَّثِينَ وَالْمُتَرَجِّلاَتِ:
عورتوں کی مشابہت کرنے والے مخنث اور مردوں کے مشابہہ بننے والی عورتوں کا بیان
حدیث نمبر: 2686
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ زُرْعَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الصُّفَّةِ، قَالَ: جَلَسَ عِنْدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَخِذِي مُنْكَشِفَةٌ، فَقَالَ: "خَمِّرْ عَلَيْكَ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْفَخِذَ عَوْرَةٌ؟".
زرعہ بن عبدالرحمٰن نے اپنے والد عبدالرحمٰن (بن جرہد رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا جو اصحابِ صفہ میں سے تھے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بیٹھے اور میری ران کھلی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو ڈھک لو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ران عورة ہے (یعنی چھپانے کی چیز ہے)۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد وله شواهد أيضا يتقوى بها، [مكتبه الشامله نمبر: 2692]»
اس حدیث کی اسناد جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4014]، [ترمذي 2795]، [ابن حبان 1710]، [موارد الظمآن 353]، [الحميدي 880]۔ سنن ابی داؤد میں ہے کہ جرہد اصحابِ صفہ میں سے تھے۔ نیز عبدالرحمٰن بن جرہد کا شمار صحابہ میں نہیں ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2685)
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مسجد میں ران، جانگھ عورۃ ہے، حمام میں نہیں۔
اکثر علماء اور مجتہدین کا قول یہی ہے کہ ران عورۃ ہے اس کو چھپانا چاہیے، اس سے معلوم ہوا کہ جانگھیا نیکر پہننا درست نہیں کیونکہ ران اس سے کھلی رہتی ہے، بلکہ شرم گاہ تک کھل جاتی ہے، اور لڑکی تو سر سے پیر تک عورۃ ہے اس لئے مسلمان لڑکیوں کا اسکول میں فراک، نیکر، اسکرٹ وغیرہ پہننا بالکل حرام ہے۔
«فاعتبروا يا أولي الأبصار» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد وله شواهد أيضا يتقوى بها