غزوات کے بیان میں जंगों और लड़ाइयों के बारे में نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو حجتہ الوداع سے پہلے یمن بھیجنا۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کی طرف روانہ کیا۔ پھر ان کی جگہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور فرمایا: ”سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو لوگ گئے تھے ان سے کہنا کہ ان میں سے جو تمہارے ساتھ جانا چاہے وہ یمن چلا جائے اور (جہاد کرے اور) جو چاہے مدینہ واپس چلا آئے تو میں بھی انہی میں سے تھا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کی طرف چلے گئے تھے۔ پھر غنیمت سے بہت سے اوقیہ حصہ میں ملے تھے۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے پاس خمس لینے کے لیے بھیجا اور میں نے انھیں برا سمجھا (کیونکہ انھوں نے ایک لونڈی سے صحبت کی اور) انھوں نے وہاں غسل کیا۔ میں نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم ان کو دیکھتے نہیں؟ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قصہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بریدہ! کیا تم علی رضی اللہ عنہ سے عداوت رکھتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان سے عداوت مت رکھ کیونکہ ان کا خمس میں اس سے بھی زیادہ حصہ ہے۔ (پھر وہ میرے محبوب بن گئے)۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے سونے کا ایک ٹکڑا صاف کیے ہوئے چمڑے میں رکھ کر بھیجا، ابھی وہ سونا مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عینیہ بن بدر اور اقرع بن حابس اور زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیل (رضی اللہ عنہم)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں میں ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔“ پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص دھنسی ہوئی آنکھوں والا، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، اونچی، پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”اللہ تجھے ہلاک کرے کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟“ (پھر) کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں لوگوں کے دلوں میں نقب لگا کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا، پھر کہا: ”اس شخص کی نسل سے وہ قوم نکلے گی جو قرآن کو مزے سے پڑھیں گے، حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے۔“ (راوی کہتا ہے) میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا: ”اگر وہ قوم مجھے ملے تو میں انھیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔“
|