غزوات کے بیان میں जंगों और लड़ाइयों के बारे में بنی نضیر کے یہودیوں کا قصہ اور ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دھوکا کرنے کا بیان۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی نضیر اور بنی قریظہ نے (خلاف معاہدہ) لڑائی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کو جلاوطن کر دیا اور بنی قریظہ پر احسان کر کے رہنے دیا۔ جب قریظہ نے مسلمانوں پر (دوبارہ) چڑھائی کی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مردوں کو مار ڈالا اور ان کی عورتوں، بچوں اور مال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا مگر کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں امن دیا، وہ مسلمان ہو گئے، پھر تمام یہودی مدینہ بنی قینقاع کو جو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی قوم کے تھے اور یہود بنی حارثہ اور باقی یہود مدینہ (سب کو) جلاوطن کر دیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے درخت جلا دیے اور (بعضے) کاٹ دیے جو کہ بویرہ میں تھے تو یہ آیت اتری: ”جو درخت تم نے کاٹ دیئے یا انھیں ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے ہے ....۔“ (سورۃ الحشر: 5)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا آٹھواں حصہ مال غنیمت میں سے مانگنے کو بھیجا۔ میں ان کو منع کرتی تھی اور کہتی تھی کہ کیا تمہیں اللہ کا ڈر نہیں ہے؟ کیا تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول معلوم نہیں ہے کہ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں، جو کچھ ہم چھوڑیں، وہ صدقہ ہے۔ اس سے اپنی ذات مراد تھی، صرف آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس مال میں سے کھا لے۔ پھر سب ازواج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے کہنے سے (اس حصہ کو طلب کرنے سے) رک گئیں۔
|