غزوات کے بیان میں जंगों और लड़ाइयों के बारे में ((باب))
سیدنا مقداد بن عمرو کندی رضی اللہ عنہ جو کہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور غزوہ بدر میں بھی شریک تھے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ اس بارہ میں کیا کہتے ہیں کہ اگر میں (جنگ میں) ایک کافر سے ملوں اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہو جائیں، تو وہ (کافر) میرے ایک ہاتھ پر تلوار مارے اور اسے کاٹ ڈالے، پھر وہ ایک درخت کی پناہ لے کر کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان (مسلمان) ہو گیا تو کیا میں اس کے یوں کہنے کے بعد اسے قتل کر ڈالوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اسے قتل نہ کرو۔“ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! بیشک اس نے میرا ایک ہاتھ (بھی) کاٹ ڈالا اور کاٹنے کے بعد ایسا کہنے لگا (کہ مسلمان ہو گیا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اس کو قتل مت کرو ورنہ بیشک اسے وہ درجہ حاصل ہو جائے گا جو تجھے اس کے قتل کرنے سے پہلے حاصل تھا اور تیرا وہ حال ہو جائے گا جو اسلام کا کلمہ پڑھنے سے پہلے اس (کافر) کا حال تھا۔“
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جنگ بدر کے دن عبیدہ بن سعید بن عاص سے ملا اور وہ ہتھیاروں میں اس طرح غرق تھا کہ اس کی صرف دونوں آنکھیں نظر آ رہی تھیں اور اس کی کنیت ابوذات الکرش تھی، پس اس نے کہا کہ میں ابوذات الکرش ہوں، میں نے اس پر اپنے نیزے سے حملہ کیا، اس کی آنکھ پر (نیزہ) مارا تو وہ مر گیا۔ (سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ جب وہ مر گیا تو میں نے اپنا پاؤں اس کی لاش پر رکھا اور دونوں ہاتھ لمبے کر کے بہت مشکل سے وہ نیزہ اس کی آنکھ سے نکالا، اس کے دونوں کنارے ٹیڑھے ہو گئے تھے، پس یہ نیزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مانگا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیدیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے (پھر) لے لیا۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے وہ نیزہ مانگا تو میں نے انھیں دے دیا۔ پھر جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مانگا، میں نے انھیں دے دیا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی تو میں نے لے لیا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مانگا تو میں نے انھیں دے دیا۔ پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ (اور ان) کی اولاد کے پاس رہا۔ آخر میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے مانگ لیا اور وہ ان کے پاس رہا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔
سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی سے اگلے روز (یعنی عروسی کے روز) صبح میرے پاس تشریف لائے، کچھ لڑکیاں اس وقت دف بجا رہی تھیں اور بدر کے دن ان کے جو بزرگ مارے گئے ان کی تعریفیں کر رہی تھیں۔ ایک لڑکی ان میں سے یہ کہنے لگی کہ ہم میں ایک نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے جو جانتا ہے کہ کل کیا ہو گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح مت کہو اور پہلے جو کہہ رہی تھی وہی کہو۔“
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے جو کہ جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے، روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(رحمت کے) فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جہاں کتا اور (جانداروں) کی تصویریں ہوں۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں، ان کے خاوند خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور جنگ بدر میں بھی شریک تھے، مدینہ میں فوت ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان کے سامنے حفصہ (رضی اللہ عنہا) کا ذکر کیا اور کہا کہ (وہ بیوہ ہیں) اگر تم چاہو تو میں ان کا نکاح تم سے کر دوں؟ تو انہوں نے کہا کہ میں سوچ کر بتاؤں گا، پس میں کئی راتوں تک ٹھہرا رہا۔ پھر (ان سے ملا تو) انھوں نے کہا کہ ابھی میں یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ ان دنوں (دوسرا) نکاح نہ کروں۔ پھر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ اگر تم چاہو تو میں حفصہ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح تم سے کر دوں؟ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے اور مجھے کچھ جواب نہ دیا تو مجھے ان پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ غصہ آیا، میں اور کئی راتیں ٹھہرا رہا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا تو میں نے ان کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔ اس کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھے ملے تو کہا کہ شاید تمہیں غصہ آیا ہو گا۔ جب تم نے مجھ سے حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا اور میں نے تمہیں کچھ جواب نہ دیا تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں (آیا) تھا۔ انھوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے تم کو جواب نہ دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا (کہ کیا میں اس سے نکاح کر لوں) اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہیں کر سکتا تھا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نکاح کرنے کا ارادہ چھوڑ دیتے تو بیشک میں ان سے نکاح کر لیتا۔
سیدنا ابومسعود البدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی رات کو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات پڑھ لے وہ اسے کافی ہو جاتی ہیں۔“
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارہ میں فرمایا: ”اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان ناپاک لوگوں کی سفارش کرتا تو میں اس کے کہنے پر انھیں چھوڑ دیتا۔“
|