غزوات کے بیان میں जंगों और लड़ाइयों के बारे में غزوہ تبوک جس کو غزوہ عسرۃ بھی کہتے ہیں۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے دوستوں نے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس غزوہ میں آئے تھے، مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواریاں مانگنے کے لیے بھیجا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھیوں نے مجھے سواریاں لینے کے لیے بھیجا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا اور یہ فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں ان کو کسی چیز پر سوار نہ کروں گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے غصہ میں تھے لیکن میں نہ سمجھا۔ میں بہت رنجیدہ ہو کر لوٹا۔ مجھے ایک رنج تو یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری نہیں دی اور دوسرا یہ کہ کہیں میرے سواری مانگنے سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض نہیں ہوئے۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہا تھا ان سے بیان کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے سنا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آواز دے رہے ہیں کہ اے عبداللہ بن قیس! (سیدنا ابوموسیٰ کا نام ہے)۔ میں ان کے پاس گیا تو انھوں نے کہا کہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرماتے ہیں۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دو اونٹ اور یہ دو اونٹ اور یہ دو اونٹ (یعنی) چھ اونٹ لے جا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اونٹ اسی وقت سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے خریدے تھے پھر فرمایا: ”یہ اونٹ اپنے ساتھیوں کے پاس لے جا اور ان سے کہہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ اللہ کے رسول نے تمہیں یہ اونٹ سواری کے لیے دیے ہیں پس ان پر سوار ہو جانا۔“ میں وہ اونٹ لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں یہ اونٹ سواری کے لیے دیئے ہیں۔ لیکن اللہ کی قسم! میں تمہیں ہرگز نہ چھوڑوں گا جب تک تم میں سے چند آدمی میرے ساتھ اس شخص کے پاس نہ چلیں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا (سواری دینے سے) منع کرنا سنا ہے، کہیں یہ نہ سمجھنا کہ میں نے تم لوگوں سے ایک ایسی بات کہہ دی جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ ہم تمہیں سچا سمجھتے ہیں اور اگر تم (تصدیق کرانا) اچھا سمجھتے ہو تو ہم ایسا ہی کریں گے۔ پھر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ان میں سے چند آدمی ساتھ لے کر ان لوگوں کے پاس آئے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا تھا کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سواری دینے سے انکار کیا تھا اور پھر اس کے بعد سواری عنایت فرمائی، تو انھوں نے وہی بیان کیا جو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے بیان کیا تھا۔
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں تشریف لے جانے لگے تو مدینہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جانشین چھوڑا تو انھوں نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ میرے پاس تمہارا وہ درجہ ہو جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا مگر صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“
|