غزوات کے بیان میں जंगों और लड़ाइयों के बारे में بنی حنیفہ کے ایلیچیوں کا بیان اور سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا قصہ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مسیلمہ کذاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ بنا دیں تو میں ان کی اطاعت کروں گا اور وہ اپنی قوم (بنی حنیفہ) کے اکثر لوگوں کو ہمراہ لایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، خطیب انصار سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اس کے پاس تشریف لے گئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں شاخ خرما کی چھڑی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھیوں کے پاس ٹھہرے اور فرمایا: ”اگر تو مجھ سے یہ ٹکڑا بھی مانگے تو میں تجھے نہ دوں گا اور اللہ نے جو تیری تقدیر میں لکھ دیا ہے، تو اس سے بچ نہیں سکتا اور اگر تو مجھ سے منہ موڑے گا تو اللہ تجھے ہلاک کر دے گا اور میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تو وہی ہے جس کا حال خواب میں مجھ سے بیان کیا گیا اور یہ ثابت بن قیس ہے جو تجھے میری طرف سے جواب دے گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا مطلب دریافت کیا کہ ”تو وہی ہے جس کا حال خواب میں مجھ سے بیان کیا گیا“ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ایک بار میں سویا ہوا تھا تو میں نے خواب میں اپنے ہاتھوں میں دو کنگن دیکھے، میں اس سے فکرمند ہوا۔ پھر خواب ہی میں بذریعہ وحی مجھے اشارہ ہوا کہ ان دونوں کو پھونک مار دو۔ میں نے ان دونوں کو پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے۔ ان کی تعبیر میں نے یہ لی کہ دو جھوٹے شخص میرے بعد نبوت کا دعویٰ کریں گے، ایک اسودعنسی اور دوسرا مسیلمہ۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار روانہ فرمائے تو وہ ایک شخص کو پکڑ لائے جو قوم بنی حنیفہ میں سے تھا اور اسے ثمامہ بن اثال کہتے تھے، پھر اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس جا کر کہا: ”اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟“ (کہ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) وہ بولا کہ اے محمد! میرا خیال بہتر ہے، اگر آپ مجھے مار ڈالیں گے تو بھی کوئی قباحت نہیں کیونکہ میں نے بھی جنگ میں مسلمانوں کو مارا ہے اور اگر آپ احسان کر کے مجھے چھوڑ دیں گے تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا اور اگر آپ مال و دولت چاہتے ہوں تو وہ بھی حاضر ہے، جتنا آپ چاہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے، دوسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟“ وہ بولا کہ میرا خیال وہی ہے جو میں عرض کر چکا کہ اگر آپ احسان کر کے چھوڑ دیں گے تو میں شکرگزار ہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ویسا ہی بندھا رہنے دیا۔ پھر تیسرے دن پوچھا: ”اے ثمامہ! تیرا کیا گمان ہے؟“ وہ بولا کہ وہی جو میں عرض کر چکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثمامہ کو آزاد کر دو۔“ لوگوں نے تعمیل کر کے چھوڑ دیا۔ ثمامہ ایک تالاب پر جو مسجد کے قریب تھا، گیا اور غسل کر کے مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اے محمد! اللہ کی قسم مجھے تمام روئے زمین پر کسی کا چہرہ دیکھ کر اتنا غصہ نہیں آتا تھا جتنا آپ کا چہرہ دیکھ کر آتا تھا۔ اب آج کے دن آپ کا چہرہ مبارک سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے اور اللہ کی قسم آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین مجھے برا معلوم نہ ہوتا تھا اور اب آپ کا دین مجھے سب سے بھلا معلوم ہوتا ہے اور اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ کے شہر سے برا کوئی شہر نہ تھا اور اب آپ کا شہر میرے نزدیک سب شہروں سے بہتر ہو گیا، آپ کے سواروں نے مجھ گرفتار کیا، جب کہ میں عمرہ کے ارادہ سے جا رہا تھا، اب آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مبارکباد دی اور اسے عمرے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ میں آئے تو کسی نے اس سے کہا کہ تم بےدین ہو گئے ہو؟ وہ بولے نہیں اللہ کی قسم! بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان ہو گیا ہوں اور اللہ کی قسم! تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہ آنے پائے گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم نہ دیں گے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سو رہا تھا کہ اسی حالت میں زمین کے خزانے میرے پاس لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھ دیے گئے۔ مجھے یہ برا معلوم ہوا تو مجھے بذریعہ وحی کہا گیا کہ میں انھیں پھونک ماروں۔ تب میں نے انھیں پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ سمجھی کہ ان کنگنوں سے وہ دونوں کذاب مراد ہیں جن کے درمیان میں، میں ہوں، وہ دونوں صاحب صنعاء (یعنی اسودعنسی) اور یمامہ والا (مسیلمہ کذاب) ہیں۔“
|