غزوات کے بیان میں जंगों और लड़ाइयों के बारे में ذات الرقاع کی جنگ کا بیان۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس آ گئے اور ایک ایسے جنگل میں دوپہر ہو گئی جس میں کانٹے بکثرت تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وہیں) اتر گئے اور لوگ جنگل میں جابجا پھیل گئے اور درختوں کے سائے میں ٹھہرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیکر کے ایک گھنے درخت کے نیچے ٹھہرے اور اپنی تلوار اس پر لٹکا دی۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم تھوڑی ہی دیر سوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آواز دی۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک دیہاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے میرے سونے کی حالت میں میری تلوار کھینچ لی، اسی اثنا میں میں اٹھ بیٹھا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں دیکھی۔ یہ مجھ سے کہنے لگا کہ اب بتا تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اللہ بچا سکتا ہے پس یہ ہے وہ جو اب بیٹھا ہوا ہے۔“ لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ سزا نہ دی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خوف کی نماز اپنے ساتویں غزوہ، یعنی غزوہ ذات الرقاع میں پڑھائی۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک لڑائی میں نکلے اور ہم چھ آدمیوں کے پاس صرف ایک اونٹ تھا۔ ہم آگے پیچھے باری باری اس پر سوار ہوتے تھے، ہمارے قدم چھلنی ہو گئے تھے اور میرے دونوں پاؤں پھٹ گئے اور ناخن بھی گر پڑے تو ہم اپنے پاؤں پر پٹیاں باندھتے تھے، اس لڑائی کا نام ذات الرقاع بھی اسی وجہ سے رکھا گیا (یعنی پٹیوں دھجیوں والی لڑائی) کیونکہ ہم پاؤں پھٹ جانے کی وجہ سے ان پر پٹیاں باندھتے تھے۔
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ ذات الرقاع میں حاضر تھے، صلوٰۃ خوف (یعنی خوف کی نماز پڑھنے) کا بیان کیا کہ ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صف باندھی اور ایک گروہ دشمن کے مقابل رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ والوں کو ایک رکعت پڑھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے اور وہ (مقتدی) اپنی نماز پوری کر کے چلے گئے اور دشمن کے مدمقابل ہو گئے) پھر دوسرا گروہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دوسری رکعت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی رہ گئی تھی پڑھائی، پھر (بیٹھے) ٹھہرے رہے اور انہوں نے اپنی اپنی نماز پوری کر لی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔
|