غزوات کے بیان میں जंगों और लड़ाइयों के बारे में غزوہ طائف کا بیان جو شوال 8 ہجری میں ہوا۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، اس وقت میرے پاس ایک ہیجڑا بیٹھا تھا۔ میں نے سنا کہ وہ عبداللہ بن ابی امیہ سے کہہ رہا تھا: ”اے عبداللہ! اگر کل اللہ تعالیٰ طائف فتح کرا دے تو غیلان کی بیٹی کو لے لینا کیونکہ (وہ اس قدر فربہ ہے کہ) جب وہ سامنے سے آتی ہے تو (اس کے پیٹ میں) چار بل پڑتے ہیں اور پیٹھ پھیرتی ہے تو آٹھ۔“ (یہ سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہیجڑے آئندہ تمہارے پاس (اے ام سلمہ!) ہرگز نہ آنے پائیں۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا اور ان کا کچھ نقصان نہ کیا (بلکہ الٹا مسلمانوں کا نقصان ہوا) آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم انشاءاللہ (اب) مدینہ کو لوٹ چلیں گے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ شاق معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ ہم بغیر فتح کیونکر لوٹ چلیں؟“ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم لوٹ جائیں گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اچھا) کل صبح لڑو۔“ صبح ہوئی تو وہ سب لڑے اور زخمی ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کل انشاءاللہ ہم واپس چلیں گے۔“ اس وقت انھیں یہ بات اچھی معلوم ہوئی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔
سیدنا سعد اور سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہما دونوں کہتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اپنے اصلی باپ کے سوا جان بوجھ کر اور کسی کا بیٹا بنے تو اس پر جنت حرام ہے۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ ان دونوں (راویوں) میں سے ایک (سیدنا سعد رضی اللہ عنہ) وہ ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں پہلا تیر چلایا اور دوسرے (سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ) وہ ہیں کہ جو ان لوگوں میں سے تئیسویں آدمی تھے جو طائف کے قلعہ سے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں ٹھہرے تھے جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی نے آ کر کہا کہ کیا تم اپنا وعدہ پورا نہ کرو گے جو تم نے مجھ سے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تیرے لیے ثواب عظیم کی بشارت ہے۔“ (خوش ہو جا) وہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہی فرماتے رہتے ہیں کہ خوش ہو جا (میں اس بشارت کو اوڑھوں یا بچھاؤں؟) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوموسیٰ اور بلال رضی اللہ عنہما کے پاس غصہ کی حالت میں تشریف لائے اور فرمایا: ”اس اعرابی نے بشارت کو قبول نہیں کیا تم دونوں قبول کر لو۔“ وہ دونوں بولے کہ ہمیں قبول ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالے میں پانی منگوا کر اس میں اپنے دونوں ہاتھوں اور منہ کو دھویا اور اسی میں کلی کی پھر فرمایا: ”اس میں سے تم دونوں پیو اور اپنے منہ اور سینوں پر چھڑک لو اور خوش ہو۔“ ان دونوں نے لے لیا اور ایسا ہی کیا۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے پیچھے سے پکار کر کہا کہ کچھ اپنی ماں کے لیے بھی چھوڑ دو۔ انھوں نے کچھ پانی بچا کر انھیں بھی دے دیا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع کر کے فرمایا: ”قریش کے لوگ ابھی دور جاہلیت اور قتل و قید کی مصیبتوں سے نکلے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ انھیں کچھ مال غنیمت دے کر ان کی مدد اور دل جوئی کر دوں۔ تو کیا تم خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں کی طرف لے جاؤ؟ انھوں نے جواب دیا ”جی ہاں ہم راضی ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اور لوگ وادی کے اندر چلیں اور انصار پہاڑ کی گھاٹی پر چلیں تو میں بھی انصار کی وادی یا گھاٹی اختیار کروں گا۔“
|