غزوات کے بیان میں जंगों और लड़ाइयों के बारे में حجتہ الوداع کے بیان میں۔
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں خطبہ پڑھتے وقت یہ فرمایا: ”وقت پھر گھوم کر اپنی اسی حالت پر آ گیا جس حالت پر اس دن تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا۔ سال بارہ مہینے کا ہے جس میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ان میں سے تین تو لگاتار (1) ذی قعدہ۔ (2)۔ ذی الحجہ۔ (3)۔ محرم ہیں اور چوتھا مہینہ مضر کا رجب ہے جو کہ جمادی ثانیہ اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے۔ پھر فرمایا: ”یہ کون سا مہینہ ہے؟“ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش ہو گئے (جس سے) ہم نے خیال کیا کہ شاید اس کے نام کے علاوہ کوئی اور نام بیان کریں گے۔ پھر فرمایا: ”کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟“ ہم نے عرض کی کہ بیشک یہ ذی الحجہ ہی کا مہینہ ہے۔ پھر فرمایا: ”یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش ہو گئے جس سے ہمیں یہی خیال گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے علاوہ اور کوئی نام بیان فرمائیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا: ”کیا یہ شہر بلدئہ امین یعنی مکہ نہیں ہے؟“ ہم نے عرض کی کہ بیشک یہ مکہ کا شہر ہے۔ پھر فرمایا: ”آج کون سا دن ہے؟“ ہم نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر کچھ دیر خاموش ہو گئے، اس سے ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ یوم نحر نہیں ہے؟“ ہم نے عرض کی بیشک یہ یوم نحر (قربانی کا دن) ہی ہے۔ پھر فرمایا: ”تو اب سن لو کہ تمہارے آپس کے (مسلمانوں کے) خون اور تمہارے مال اور راوی کہتا ہے کہ میں گمان کرتا ہوں کہ (ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے) یہ بھی کہا کہ تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے، وہ تم سے تمہارے اعمال کی بازپرس کرے گا۔ دیکھو! ذرا خبردار ہو جاؤ! میرے بعد تم پھر گمراہ نہ ہو جانا (اس طرح) کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔ جو یہاں موجود ہے اس کو چاہیے کہ وہ (ان باتوں کو) اس تک پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کو بات پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والے سے زیادہ اس کو یاد رکھتا ہے۔“ (پھر فرمایا):“ خبردار ہو جاؤ! کیا میں نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچا نہیں دیے؟“ دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا۔ (امام بخاری رحمہ اللہ جب یہ حدیث بیان کرتے تو فرماتے کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کعبہ میں نماز پڑھنے کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: نماز کا بیان۔۔۔ باب: کعبہ اور مسجدوں میں دروازے اور زنجیر (تالے) رکھنا)، اس روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ”اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اس کے پاس ہی سرخ سنگ مرمر بچھا ہوا تھا۔“
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس لڑائیاں لڑیں اور ہجرت کے بعد ایک حج حجتہ الوداع کیا اس کے بعد کوئی حج ادا نہیں فرمایا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حجتہ الوداع میں اپنا سر منڈوایا اور بعض اصحاب نے قصر کیا (یعنی سر نہیں منڈوایا بلکہ کچھ بال کٹوائے)۔
|