كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار 9. باب مَا جَاءَ أَنَّ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ باب: مسلمان کی دعا کے مقبول ہونے کا بیان۔
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو کوئی بندہ اللہ سے دعا کر کے مانگتا ہے اللہ اسے یا تو اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتا ہے، یا اس دعا کے نتیجہ میں اس دعا کے مثل اس پر آئی ہوئی مصیبت دور کر دیتا ہے، جب تک اس نے کسی گناہ یا قطع رحمی (رشتہ ناتا توڑنے) کی دعا نہ کی ہو“ ۱؎۔
اس باب میں ابو سعید خدری اور عبادہ بن صامت سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2781) (حسن) (سند میں ابن لھیعہ ضعیف، اور ابوالزبیر مدلس ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ دعا میں فائدہ ہے، اللہ کی مشیت کے مطابق اگر وہ قبول ہو جاتی ہے تو جو چیز اس سے مانگی گئی ہے وہ مانگنے والے کو دی جاتی ہے اور اگر جب مشیت قبول نہ ہوئی تو اس کی مثل مستقبل میں پہنچنے والی کوئی مصیبت اس سے دور کی جاتی ہے، یا پھر آخرت میں دعا کی مثل رب العالمین مانگنے والے کو اجر عطا فرمائے گا، لیکن اگر دعا کسی گناہ کے لیے ہو یا صلہ رحمی کے خلاف ہو تو نہ تو قبول ہوتی ہے، اور نہ ہی اس کا ثواب ملتا ہے، اسی طرح دعا کی قبولیت کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ دعا آدمی کے حسب حال ہو، اس کی فطری حیثیت سے ماوراء نہ ہو جیسے کوئی غریب ہندی یہ دعا کرے کہ اے اللہ مجھے امریکہ کا صدر بنا دے۔ قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (2236)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے اچھا لگے (اور پسند آئے) کہ مصائب و مشکلات (اور تکلیف دہ حالات) میں اللہ اس کی دعائیں قبول کرے، تو اسے کشادگی و فراخی کی حالت میں کثرت سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیئے“۔
یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13497) (حسن) (سند میں شہر بن حوشب متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم: 593)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (595)
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”سب سے بہتر ذکر «لا إلہ إلا اللہ» ہے، اور بہترین دعا «الحمد للہ» ہے“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- علی بن مدینی اور کئی نے یہ حدیث موسیٰ بن ابراہیم سے روایت کی ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 242 (831)، سنن ابن ماجہ/الأدب 55 (3800) (تحفة الأشراف: 2286) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: «لا إله إلا الله» افضل ترین ذکر اس لیے ہے کہ یہ اصل التوحید ہے اور توحید کے مثل کوئی نیکی نہیں، نیز یہ شرک کو سب سے زیادہ نفی کرنے والا جملہ ہے، اور یہ دونوں باتیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں، اور «الحمد لله» سب سے افضل دعا اس معنی کر کے ہے کہ جو بندہ اللہ کی حمد کرتا ہے وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر یہ ادا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «لئن شكرتم لأزيدنكم» ”اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ دوں گا“، تو اس سے بہتر طلب (دعا) اور کیا ہو گی، اور بعض علماء کا کہنا ہے کہ «الحمد لله» سے اشارہ ہے سورۃ الحمدللہ میں جو دعا اس کی طرف، یعنی «إهدنا الصراط المستقيم» اور یہ سب سے افضل دعا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3800)
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 19 (تعلیقا) صحیح مسلم/الطھارة 30 (373)، والحیض 30 (373)، سنن ابی داود/ الطھارة 9 (18)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 11 (303) (تحفة الأشراف: 16361)، و مسند احمد (6/70، 153، 178) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سبھی اوقات سے یہ اوقات مستثنیٰ ہیں مثلاً: پاخانہ، پیشاب کی حالت اور جماع کی حالت، کیونکہ ان حالات میں ذکر الٰہی نہ کرنا، اسی طرح ان حالتوں میں مؤذن کے کلمات کا جواب نہ دینا اور چھینک آنے پر «الحمد للہ» نہ کہنا اور سلام کا جواب نہ دینا بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (302)
|